وزیراعظم جے آئی ٹی کے سامنے ،لیکن اس کے بعد ؟

ہم سب کی ایک بہت بڑی آرزو یہ تھی کہ ہمارے حکمران قابل احتساب ہوں۔اگر ان پر کوئی غلطی کرنے کے الزامات ہوں تو ان سے جواب طلب کیا جائے۔14 جون کو پاکستان کے منتخب وزیر اعظم نواز شریف نے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوکر اس دیرینہ خواہش کو پورا کر دیا۔ دنیا بھر کے جمہوری ملکوں کی روایت بھی یہی ہے۔حکمران ہوں، بڑے بڑے عہدوں پر فائز سول بیورکریٹس، فوجی جرنیل ہوں یا معزز جج صاحبان ۔ یا عام آدمی ، جب بھی ان پر کسی بھی قسم کے الزامات لگتے ہیں تو وہ جواب دہی کے لیئے عدالتوں کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں۔'ن ' لیگ سے لاکھ اختلاف سہی ان کے ماضی سے متعلق کیسی کیسی باتیں کیوں نہ گردش کر رہی ہوں۔نواز شریف کی اپنی حکمرانی پر کیسے کیسے سوالات کیوں نہ کیئے جارہے ہوں ،لیکن بہرحال انہوں نے عدالت عالیہ کی تحقیقاتی ٹیم 'جے آئی ٹی ' کے سامنے پیش ہوکر ملک میں ایک اچھی اور جمہوری روایت کی تاریخ رقم کردی ہے۔لیکن اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ اب ملک کی سیاسی جماعتوں کے تمام قائدین ،اداروں کے بڑے سے بڑے افسران کو بھی تیار رہنا پڑے گا کہ وہ بھی اس قسم کی جواب دہی کے لیئے تیار رہیں۔کیونکہ جب عوام اپنے منتخب وزیر اعظم کو ،جس کے پاس دو تہائی اکثریت بھی ہو ،ایک عدالتی حکم پر سر جھکا تے ہوئے دیکھ رہے ہوں۔تو پھر اب چاہے کوئی بھی کتنا ہی طاقت ور کیوں نہ ہو ،اسے بھی ایسا ہی عمل کرتے ہوئے دیکھنا چاہیں گے۔۔لیکن یہ بات طے شدہ ہے کہ زبانی دعاوے تو ایک طرف لیکن ہمارے جیسے ملکوں میں جہاں پر سرداری ،وڈیرہ شاہی اور چودراہٹ کا نظام چل رہا ہو۔وہاں پر لمبی لمبی گاڑیوں سے اترنے والوں کے لیئے یہ کام کرنا کچھ اتنا آسان نہیں ہوگا۔اسی کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے کہ عدالتوں اور تحقیقاتی اداروں کے سامنے ،اپنے معاملات کو حل کرنے کے لیئے لیجانا ،ایک انتہائی قدم تو کہلایا جاسکتا ہے۔ لیکن ہر جمہوری معاملے کو انصاف کے نام پر عدالتوں میں طے کرنا کوئی بہت اچھی ،سیاسی یا جمہوری روایت نہ ہوگی۔ سیاست اور جمہورت نام ہی لچک اور مفاہمت کا ہے۔ نام ہی برداشت اور قومی معاملات میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر چلنے کا ہے۔بلاشبہ کرپشن یا کسی بھی جرم کرنے والے سے جواب دہی بھی ہونی چاہیئے اور قانون کے مطابق سزا بھی ملنی چاہیئے۔لیکن اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ اگر آپ کے پاس سیاسی دم خم نہ ہو تو ہر قومی معاملے کو ،دھرنوں ، احتجاج ، کے بل پر حل کیا جائے یا پھر انصاف کے نام پر عدالتوں میں لے جاکر معاملات کو طے کرنے کی کوشش کی جائے یاپھر میڈیا کو اپنے ایجنڈے کے طور پر استعمال کرنے کا کام لیا جائے۔ پھر عوام کی کیا تربیت ہوگی یا تو وہ احتجاجوں اور دھرنوں میں وقت گزاریں گے یا پھر عدالتوں کے فیصلوں کے انتظار کرتے رہیں گے یا پھر میڈیا کے بحث مباحثوں میں مصروف رہیں گے۔سیاسی جماعتیں ان کی تربیت کیسے کریں گی۔انہیں کیسے پتہ چلے گا کہ قومی معاملات میں کونسے متبادل راستے اختیار کیئے جاسکتے ہیں ، اور ان کے لیئے معزز ایوانوں میں بیٹھ کر ہمارے نمائندے جنہیں وہ پانچ سال کے لیئے چنتے ہیں ان کا حل کیسے نکالتے ہیں۔گزشتہ نو سال میں اعلیٰ عدلیہ اور کورٹس میں تو سیاسی جماعتیں بار بار انصاف کی دہائی دیتے ہوئے جاتی رہیں اور ہماری اعلیٰ عدالتوں نے قانون اور آئین کے مطابق فیصلے کر کے بلند روایات بھی قائم گئیں۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ اگر قومی اسمبلی اور سینٹ میں انہی جماعتوں کی کارکردگی دیکھی جائے تو وہ انتہائی مایوس کن ہے۔شاید ہی کوئی قابل ذکر آئین سازی ان نو سالوں میں دیکھنے میں آئی ہو۔نہ تو حکومت اور اس کے وزرا، اس میں دلچسپی لیتے ہیں اور نہ ہی اپوزیشن جماعتیں قانون سازی کے طور پر کام کرتی ہیں۔قومی معاملات کے بجائے سعودی عرب اور ایران کی محاذآرائی ،یمن اور قطر کے تنازعات ،اسلامی فوج کے سربراہ کی تقرری کے این او سی اور اسی قسم کے معاملات پر جذباتی تقریریں کرنا۔جس میں پاکستان کا شاید ہی کچھ لینا دینا ہو۔ہمارے نمائندوں اور منتخب اراکین کی روایت بن چکی ہے۔غالباً وہ عوام کو بالکل بیوقوف سمجھتے ہیں کہ ان بچاروں کا قانون سازی سے کیا لینا دینا۔قوم اور ملک کو ترقی کیلیئے کس قسم کی تبدیلیوں کی ضرورت ہے اس کا نہ تو انہیں خود ادراک ہے اور نہ ہی کوئی غور خوض یا اس کے لیئے کوئی بل ان ایوانوں میں پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جمہوری نظام میں حکمران اور سیاسی جماعتیں تو آتی جاتی رہتی ہیں۔لیکن سب سے مقدم چیز یہ ہے کہ وہ مضبوط روایات ڈال دی جائیں۔جن سے نہ کوئی حکمران ہٹ سکے ،نہ کوئی سیاسی جماعت اس کی سرتابی کر سکے اور نہ ہی کوئی بڑے سے بڑا ادارہ یا شخصیت اس کے خلاف جانے کی جرا¿ت کر سکے۔عوام کو بہرحال سر بلند رہنا چاہیئے۔

ای پیپر دی نیشن