حسین نواز کی تصویر، وزیراعظم ہاوس کے فون ٹیپ اور گواہوں کی مانیٹرنگ کرنےوالوں کو بے نقاب کیا جائے

فون ٹیپ کرنے اور گواہوں کی مانیٹرنگ کا خود اعتراف کیا۔ جے آئی ٹی الزامات کا ثبوت دے، اٹارنی جنرل نے وزیراعظم ہا¶س اور اداروں کا جواب سپریم کورٹ میں جمع کرا دیا۔
اٹارنی جنرل کا جے آئی ٹی کی طرف سے وزیراعظم ہا¶س کے فون ٹیپ کرنے اور گواہوں کی مانیٹرنگ کے حوالے سے اعتراف پر سپریم کورٹ میں جواب داخل کرانے سے معلوم ہوتا ہے کہ جی آئی ٹی کی طرف سے بہت سے خلاف قانون کام کئے جا رہے ہیں جس سے اسکی غیر جانبداری پر حرف آ سکتا ہے۔ فون ٹیپ کرنے‘ گواہوں کی مانیٹرنگ کرنے کے معاملات اب سامنے آئے ہیں تو سپریم کورٹ کو اس کا سنجیدہ نوٹس لینا چاہیے۔ اس سے قبل حسین نواز کی جے آئی ٹی میں پیشی کے موقع پر ان کی تصویر بھی اس طرح لیک ہوئی تھی چند روز بعد جب اس پر شور اٹھا تو متعلقہ اداروں نے بیان دیا کہ ذمہ دار شخص کو پہلے ہی جے آئی ٹی سے ہٹا کر واپس بھیج دیا گیا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ جب جے آئی ٹی کے روبرو وزیراعظم اور وزیراعلیٰ جیسی ملک کی مقتدر شخصیات پیش ہو سکتی ہیں تو تصویر لیک کرنے میں ملوث شخص کو مقدس گائے کا درجہ کیوں دیا جا رہا ہے۔ سیدھی طرح اس کا نام کیوں نہیں بتایا جارہا۔ آخر اس کو بچانے کیلئے اتنی پردہ داری کی ضرورت کیا ہے۔ اس معاملہ کو منطقی انجام تک پہنچانا ضروری ہے جس کیلئے سپریم کورٹ ہی مجاز فورم ہے۔ اسی طرح وزیراعظم ہاﺅس کے فون ٹیپ کرنے اور گواہوں پر دباﺅ ڈالنے کے معاملہ کا بھی سخت نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔

ای پیپر دی نیشن