نیا جریدہ اور نئی کتابیں

پچھلے دنوں کسی کرم فرما نے ایک میگزین اور ایک کتاب پیش کی۔ میگزین چونکہ انگریزی زبان میں تھا اس لیے اس کو آہستہ آہستہ سست رفتاری سے پڑھا مگر کتاب ’’کسی اور زمانے کا خواب‘‘ شستہ اردو میں تھی اس لیے اس کو پڑھنے کی رفتار بھی شستہ رہی۔میگزین میں تو بھارتی انتخابات میں مودی کی جیت کے حوالے سے اور بھارتی جاسوس کلبھوشن کے حوالے سے مضامین اور ریسرچ رپورٹیں تھیں۔ موضوعات چونکہ شناسا تھے اور لکھنے والے بھی، اس لیے ان مضامین میں دلچسپی برقرار رہی۔ کلبھوشن کے حوالے سے عالمی عدالت انصاف میں ایک عدد کیس کی سماعت بھی مکمل ہو چکی ہے اس حوالے سے احمر بلال صوفی کا مضمون خاص طور پر عالمی عدالت کے حوالے سے ان کے مضمون نے بہت متاثر کیا اور یاد آیا کہ سرظفراللہ خان بھی اس عدالت کے رکن رہے ہیں اور پھر اس حوالے سے قدرت اللہ شہاب نے اپنے شہاب نامہ میں اس کا ذکر بھی کیا ہے اور سرظفر اللہ خاں کو کھل کر خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔اسی طرح آج کی کتاب ’’کسی اور زمانے کا خواب‘‘ جو کہ ظفر اللہ خاں کے ملت اسلامیہ کے حوالے سے ان کی ایک تقریر کی دلچسپی تفہیم ہے۔ یاد رہے کہ یہ ظفراللہ خاں سر ظفر اللہ خاں نہیں مگر پڑھے لکھے اور نہایت ذہین آدمی ہیں۔ انھوں نے ملت اسلامیہ کے شاندار ماضی کا کافی مطالعہ کر رکھا ہے اور اس کو آج کے مسائل کے حوالے سے بھی دیکھتے ہیں بلکہ اپنا ’’خواب‘‘ ملتِ اسلامیہ کے شاندار ماضی کو ہی قرار دیتے ہیں۔اس کتاب میں انھوں نے نہایت شاندار طریقے سے نہ صرف ملت اسلامیہ کے شاندار ماضی کا تذکرہ کیا ہے بلکہ قدم قدم پر اپنے مطالعے کے زیر اثر حوالہ جات بھی دیئے ہیں جو ان کے صاحب علم ہونے کی تصدیق کرتے ہیں۔ کتاب کے آخر میں کتابیات کی تعداد اگرچہ 31ہے اور تقریباً سولہ سترہ صفحے اشاریہ کے ہیں جو اس بات کی تصدیق کرنے کو کافی ہیں کہ مصنف کی اپنے موضوع پر گہری نظر ہے اور وہ جو بات کرتے ہیں اس کو مدلل کرنے کے لیے ان کے پاس مضبوط حوالے ہیں جو دلائل کی شکل اختیار کر جاتے ہیں۔کتاب کے ابواب پر نظر ڈالیں تو موضوعات کا تعین ہی اس قدر خوبصورت ہے کہ کتاب میں سنجیدہ قاری کی دلچسپی برقرار رکھتا ہے۔ حرکت، جدوجہد، سیاسی چیلنج، علمی چیلنج، سائنس، جمہوریت، حقوق انسانی، جہالت، غربت، دین کی غلط تعبیر اور پھر ان مسائل سے نکلنے کے لیے لائحہ عمل بھی موجود ہے۔ ہمیں اس پر ہی بات کرنی ہے کہ لائحہ عمل میں موجودہ عالمی اسلامی مسائل کا احاطہ ذرا زیادہ جارحانہ اور ناقدانہ ہوتا تو لائحہ عمل کا باب بھی زیادہ موثر ثابت ہو سکتا تھا۔ یوں تو مصنف نے جابجا دین اسلام کا سہارا لے کر عوامی استحصال کی مثالیں دی ہیں اور ایرانی و خاندانی ملوکیت جانچنے والے عرب ممالک کا تذکرہ کیا ہے مگر یہ مسائل ہر اسلامی ملک میں موجود ہیں اور جب تک ان کے ذمہ داروں کا تعین نہ ہو سکے گا یہ مسئلہ بہرحال ایک بڑے اسلامیے المیے کو جنم دیتا رہے گا۔اسکے علاوہ ایک اور تشنگی بھی رہتی ہے کہ کاش ملت اسلامیہ کے شاندار ماضی کو مستقبل کی شکل دی جا سکے۔ اس حوالے سے شاندار ماضی کا محض تذکرہ کافی نہیں بلکہ دورِ حاضرمیں عالمی اسلامی کو لاحق مسائل اور ان کے حل پر لکھتے ہوئے شاندار ماضی کو مستقبل کی شکل دی جا سکتی ہے۔ اس سے اگرچہ ایسی کتابوں کے مصنّفین کے لیے اختصار کو محدود کرنا ہوگا اور ظفر اللہ خاں جیسے روشن خیال اور پڑھے لکھے لوگ ہی یہ کام سرانجام دے سکتے ہیں اور اس کتاب کے قاری کی توقعات اس حوالے سے بجا ہیں۔اس کتاب کے مطالعے سے نہ صرف قاری کے لیے نئے نئے انکشافات اسے متاثر کرتے ہیں بلکہ ان کا روشن خیال تجزیہ اس کے ذہن کو مزید کھولتا ہے اور اس کی توقعات میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ عالمی نوبل انعام کی دی تفاصیل کہ کس طرح 0.2فیصد آبادی کے لوگ عالمی نوبل انعام جیتتے ہیں پیش پیش ہیں جبکہ 23فیصد اسلامی دنیا کے خال خال نام ہی اس حوالے سے منظر عام پر آتے ہیں۔مطالعے کے حوالے سے بہرحال یہ ایک شاندار کتاب ہے اور مصنف نے بجا طور پر اپنے مشیروں اور حوصلہ افزائی کرنے والوں کا شکریہ ادا کیا ہے ان میں وقار اسلم حمدی، بشیر احمد ندیم، علی اصغر چشتی، وقار احمد اورسید محمود بھی شامل ہیں اور اپنے دو دوست جن کا تعلق ادب سے ہے وہ بھی شامل ہیں یعنی مظہرالسلام اور شعیب بن عزیز۔ انعام الحق جاوید کا ذکر بھی بطور ناشر ہے کہ وہ اس کتاب کے ناشر ہیں۔گذشتہ ہفتے کی ادبی تقریب لاہور اکادمی ادبیات کے سابق مدارالمہام بلکہ ’’مدارالحمام‘‘ ’’جمیل‘‘ کے بیٹے کی دعوتِ ولیمہ تھی جس میں لاہور سے تعلق رکھنے والے بہت سے موقر شاعروں اور ادبیوں نے شرکت کی۔ اس میں شرکت کرنے والوں میں ضیاء الحسن، امجد طفیل، ایوب ندیم، نواز کھرل، جاوید آفتاب، رخشندہ نوید، سلمیٰ اعوان، نیلم احمد بشیر، قاضی جاوید، عرفان صادق، باقی احمد پوری، عاصم بٹ، سرفراز سید نے بجاطور پر اس دعوت ولیمہ کو ایک ادبی دعوت بنا ڈالا اور بعدازاں مون مارکیٹ اقبال ٹائون میں امجد طفیل کی طرف سے چائے کی دعوتِ عام نے اس کو پرانی انارکلی ٹچ بھی دے دیا۔ اس قسم کی دعوتوں کا بھی فائدہ ہیں کہ مختلف الخیال ادیب بڑی رواداری سے اپنا مافی الضمیر بھی بیان کرتے ہیں اور دوسروں کا بھی سنتے ہیں۔ ورنہ معاشرے میں اب رواداری کا چلن ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ خاص طور پر جب وزیراعظم کے لوگ صحافیوں کو چپیڑیں مارنے پر اتر آئیں تو اس سے بڑی عدم رواداری اور کیا ہو گی۔

ای پیپر دی نیشن