C0VID-1پالتو سانپ، چمگادڑیں اور کرونا وائرس

C0VID-19پھیلائو کے شدت سے بڑھتے زہریلے اثرات پر تحقیق کرنے والے برطانوی ادارہ صحت کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق اس جان لیوا وباء کا برطانیہ میں زور گو کافی حد تک ٹوٹ چکا ہے تاہم 41 ہزار سے زائد اموات کے بعد حکومت کا عوام کو یہ تسلی دینا کہ حالات جلد نارمل ہونے جارہے ہیں میرے نزدیک ہنوز ایک دلاسہ ہے… کرونا کا برطانیہ سمیت عالمی سطح پر مکمل خاتمہ کب ہوگا …؟ وباء کے اس خاتمے کے بعد انسانی زندگی کیا معمول پر آسکے گی… ؟ایسے بنیادی سوالات نہیں جن کا جواب دینا فی الحال اس لئے بھی قبل از وقت ہے کہ جب تک اس جان لیوا وبا کی ویکسین دریافت نہیں ہو جاتی اس وقت تک کسی بھی حکومتی فیصلے کی حیثیت PRIDICTIONسے زیادہ نہیں ہوسکتی…؟
موجودہ حالات میں 2 میٹر کی سماجی دوری، منہ کو ماسک سے ڈھانپنا، ہاتھوں میں گلوز پہنے رکھنا اور 20 سیکنڈ تک ہاتھوں کو گرم پانی سے دھونا … ہی اس وباء کے پھیلائو کو روکنے کا واحد علاج ہے … یہ سوال کرنا کہ ’’کرونا‘‘ نظر کیوں نہیں آرہا؟ اپنے آپ کو محض موت کے منہ میں دھکیلنا ہے۔
اپنے آپ کو اس وباء سے محفوظ رکھنے کیلئے گزشتہ کالمو ں میں بھی رب کریم اور اس کے رسول مقبول ؐ کا ہاتھ جوڑ کر واسطہ دے چکا ہوں کہ اس جان لیوا مرض کو مذاق کے طور پر نہ لیں… مگر افسوس! صد افسوس! کہ اپنے دیئے اس واسطہ کے باوجود وطن عزیز پاکستان میں اہل وطن کی ایک کثیر تعداد SELF DISTANCING کی کھلے عام دھجیاںں بکھیرتی نظر آرہی ہے جس سے اموات کی شرح میں روزبروز شدت سے اضافہ ہونے لگا ہے اور ممکنات میں ہے کہ ماہ جولائی تک اموات کی تعداد مزید بڑھ جائے؟
چین کے شہر ’’ووہان‘‘ سے شروع ہونے والی اس جان لیوا وباء کے بارے میں ’’ولایت نامہ‘‘ پڑھنے والوں کی ایک بڑی تعداد کا اصرا رہے کہ ’’سانپ اور چمگادڑ‘‘ کے ان زہریلے جرثوموں پر بھی روشنی ڈالوں جو انسان کے مدافعتی نظام پر بُری طرح اثرانداز ہورہے ہیں۔ ہانگ کانگ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے بھی اپنی حالیہ تحقیق میں سانپ اور چمگادڑ’’کے جراثیم کو ہی کرونا‘‘ کا موجب ٹھہرایا ہے۔؟ مگر حیرت اس بات پر ہے کہ چین میں سانپ، مینڈک اور چمگادڑ طرز کے کئی پرندوں اور جانوروں کو بطور STAPLE FOOD کئی دہائیوں سے استعمال کیا جارہا ہے جبکہ مغربی دنیا میں بھی ایسے گوشت کو بڑے شوق سے کھایا جاتا ہے مگر ! سوال یہاں یہ اٹھتا ہے کہ متعدد دہائیوں سے کھائے جانے والے ان زہریلے جانوروں کے گوشت کے اچانک منفی اثرات اب کیسے رونما ہونے لگے ہیں…؟دنیا کے کئی ترقی پسند ممالک میں ’’سانپ‘‘ کی ڈش کو خصوصی طور پر پسند کیا جاتا ہے؟ یہاں برطانیہ کے کئی علاقوں میں بھی ’’سانپ‘‘ کی ڈش کو مہنگی ترین ڈش ہونے کے باوجود ایک مخصوص طبقہ اس سے بڑے شوق سے لطف اندوز ہوتا ہے…!مگر کرونا کے حوالہ سے ماضی میں یہاں کبھی کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انگلستان میں سانپ، مینڈک یا ’’پورک‘‘ کھانے سے وبائیں نہیں پھیلتیں، وبائیں یہاں بھی پھیلتی ہیں مگر وسائل اور تحقیقی عمل اس قدر وسیع ہے کہ کسی بھی اٹھنے والی ’’مقامی وبائ‘‘ پر کم سے کم عرصہ پر قابو پالیا جاتا ہے اس عزم کے ساتھ کہ متاثرہ افراد اپنے آپ کو احتیاطی تدابیر کے خود پابند بنالیتے ہیں؟
جہاں تک انگلستان میں ’’سانپوں‘‘ اور چمگادڑوں‘‘ کے تحفظ اور ان کی بہبود کا معاملہ ہے تو ایک محتاط اندازے کے مطابق برطانیہ میں شائقین نے 4 لاکھ سانپ ’’بطور پالتو جانور‘‘ اپنے گھروں میں پال رکھے ہیں۔ ان سانپوں پر شائقین کو گو بھاری اخراجات بھی برداشت کرنے پڑتے ہیں مگر’’اژدھا‘‘ وہ واحد سانپ ہے جس کے پالنے کا شمار یہاں ’’مہنگے ترین‘‘ شوق میں ہوتا ہے …!
’’چمگادڑوں ‘‘ کے تحفظ اور انہیں جنگلی ماحول فراہم کرنے کا جہاں تک معاملہ ہے تو یہاں کے ماحولیاتی نظام میں 80 سے زائد ایسے ’’رضاکارانہ ادارے‘‘ قائم ہیں جو انگلستان میں پائی جانے والی چمگادڑوں کی بہبود اور ان کے تحفظ کیلئے ’’مفت خدمات‘‘ سرانجام دے رہے ہیں۔
’’کرونا‘‘ پھیلائو کے ابتدائی ایام سے قبل جانوروں، پرندوں اور چوپایوں سے عشق کی حد تک محبت کرنے والے برطانوی گوروں نے سوچا تک نہ تھا کہ ’’چمگادڑ‘‘ کا تعلق بھی C0VID-19 سے ہوسکتا ہے؟بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ دنیا بھر میں چمگادڑوں کی کل تعداد1 لاکھ 4 ہزار کے قریب ہے۔ ایک تازہ ترین سروے میں یہ انکشاف کیا گیا کہ دنیا کی سب سے بڑی چمگادڑ کے ’’پر‘‘ کی چوڑائی 2 میٹر اور وزن اعشائیہ 5 کلوگرام ہے۔ یہ وہ چمگادڑیں ہیں جن کی مرغوب غذا چوہے اور چوہیاں کھانا ہے مگر دوسری جانب برطانیہ میں چمگادڑوں کی 18 اقسام کا انکشاف ہوا ہے جن میں سے 2 نایاب قسم کی ’’چم چڑکیاں‘‘ لندن اور اس کے گردونواح میں پائی جاتی ہیں حساس نوعیت کی ان چمگادڑوں کی غذا گھروں اور گارڈنز سے کیڑے مکوڑے، مینڈک، فروٹ اور POLAN کے پھول کھانا ہے۔
انگلستان میں پائی جانے والی مشہور چمگادڑ کا نام ’’COMMON PIPSTRELLE‘‘ ہے جس کا وزن 5 گرام اور ایک رات میں وہ 3 ہزار کے قریب چھوٹے کیڑے مکوڑے کھا جاتی ہے۔ اس طرح یہاں پانی کے تالابوں سے آبی درختوں میں بھی چمگادڑیں پائی جاتی ہیں جن کے پنجے بڑے ہیں جو چھوٹی مچھلی اٹھانے میں وہ اکثر استعمال کرتی ہیں۔
سوچنے سمجھنے اور غور کرنے کی بات اب یہ ہے کہ پالتو سانپ اور چمگادڑ انسانی مدافعتی نظام کیلئے اگر اتنے ہی خطرناک ہیں تو پھر کچھ عرصہ قبل یہاں پھیلنے والی پاگل گائے کی بیماری ’’سوائن فلو اور خوفناک ‘‘’’سارس فلو‘‘ سے ہونے والی سینکڑوں اموات سے سائنسدان نے سبق کیوں نہ سیکھا؟ پشین گوئیاں سینکڑوں کی جاسکتی ہیں مگر حقیقت یہی ہے کہ جب تک کرونا کے پھیلائو اور اس کی ویکسین کے بارے میں معلومات حاصل نہیں ہوجاتیں جڑی بوٹیاں، ٹوٹکے اور دیسی علاج نہیں بلکہ علاج سماجی دوری، گرم پانی سے 20 سیکنڈ ہاتھ دھونا اور توبہ استغفار کرنا ہے۔

ای پیپر دی نیشن