خالد یزدانی
’’صبیحہ خانم ‘‘ جنہوں نے پاکستان فلم انڈسٹری کو بام عروج پر پہنچانے میںاہم کردار ادا کیا ان کی فلم انڈسٹری کے لئے خدمات کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔وہ صرف اردو فلموں کی اداکارہ نہیں تھیں بلکہ پنجابی فلموں میںبھی ان کا کوئی ثانی نہیں تھا اس کی سب سے بڑی مثال فلم ’’دلا بھٹی ‘‘ تھی۔انہوں نے ہر کردار کو امر کر دیا ان کی بے ساختہ اداکاری دیکھنے والے کا دل جیت لیتی تھی۔ایک وقت تو ایسا بھی آیا کہ صبیحہ کو فلموں کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جانے لگا ۔اس دور میں شمیم آراء اور سورن لتا جیسی فنکارائیں بھی انڈسٹری میںموجود تھیں لیکن جو شہرت صبیحہ کے حصے میں آرہی تھی اس کا تو کیا ہی کہنا ۔جس وقت انہوں نے کام شروع کی انہیں اداکاری کی باریکیوں کا بالکل بھی اندازہ نہیں تھا لیکن بعد میں وہ اداکاری کی اکیڈمی کہلائیں ۔
’’صبیحہ خانم‘‘ کا پیدائشی نام والدین نے مختار بیگم رکھا وہ 16 اکتوبر 1936ء کو گجرات میں پیدا ہوئیں۔ ان کی شہرت پاکستانی فلمی اداکارہ کی تھی ، 1950ء اور 1960ء کی دہائی میں وہ پاکستانی سینما میں نمایاں رہیں جبکہ 80ء اور 90ء کی دہائی میں انہوں نے فلموں میں چیلنجنگ کردار ادا کئے جس پر ان کو ایوارڈز بھی ملے ۔صبیحہ نے کچھ فلموں کے بعد پاکستان ٹیلی ویژن ڈراموں میں بھی کام کیا تھا۔ ان کی کچھ قابل ذکر فلموں میں گمنام 1954ئ، دُلا بھٹی1956ئ، سرفروش 1956ء مُکھڑا 1958ء اور دیور بھابھی 1967ء شامل ہیں۔
صبیحہ نے زیادہ تر فلمیں سنتوس کمار (موسیٰ رضا) کے ساتھ مرکزی کرداروں میں کیں۔ فلم بین بھی صبیحہ اور سنتوش کی جوڑی کو بے حد پسند کرتے تھے حالانکہ یہ وہ دور تھا جب فلم کے ہیرو، ہیروئن اپنی شادیاں چھپایا کرتے تھے کیونکہ عام تاثر یہ تھا کہ شائقین فلم شادی شدہ اداکاروں کو زیادہ پسند نہیں کرتے مگر صبیحہ اور سنتوش ہی نہیں درپن اور نیئر سلطانہ اور علی زیب کو اس حوالے سے مثبت رد عمل سامنے آیا ۔ مختار بیگم دہلی سے تعلق رکھنے والے محمد علی (ماہیا) اور پنجاب سے تعلق رکھنے والی اقبال بیگم (بالو) کی صاحبزادی تھیں ان کی پرورش ان کے دادا دادی کے ذریعے ایک قدامت پسند دیہی ماحول میں ہوئی تھی لیکن والدہ کی وفات کے بعد وہ اپنے والد کے ساتھ لاہور آگئیں جہاں سٹیج ڈرامہ میں پہلی اداکاری کا موقع ملا اس طرح وہ ایک ثقافتی وفد کے ہمراہ شہر سیالکوٹ میں ایک سینما گھر کا دورہ کیا۔ مختار بیگم اس وقت 1984 ء میں ایک نوجوان لڑکی تھی جو اس وفد کا حصہ تھی اس نے فلم سسی پنوں میں پنجابی کا گانا گایا تھا۔ سب نے ان کی اداکاری کی تعریف کی اور جلد ہی ماہیا نے اپنی بیٹی کو ایک سٹیج ڈرامہ کے مصنف اور شاعر نفیس خلیلی سے ملوایا۔
نفیس خلیلی نے مختار بیگم کا فلمی نام صبیحہ خانم تجویز کیا بعدازاں نفیس خلیلی کی درخواست پر مشہور ہدایت کار مسعود پرویز نے انہیں فلم بیلی 1950ء میں ایک کردار دیا یوں صبیحہ کی بطور فلم اداکارہ کی حیثیت سے ’’بیلی ‘‘ پہلی فلم تھی جس میں سنتوش کمار، شاہینہ کا مرکزی کردار تھا۔ اگرچہ صبیحہ کی ابتدائی دو فلمیں ناکام رہیں مگر تیسری فلم فلمساز ہدایت کار انور کمال پاشا کی دو آنسو تھی اس میں صبیحہ کی اداکاری بے مثال تھی یہ فلم مسلسل ایک سینما میں 25 ہفتے نمائش پذیر رہی۔ اس فلم کی کامیابی کے بعد صبیحہ نے اپنی اگلی فلم ’’آغوش‘‘ میں کچھ اور پہچان حاصل کی جس کی ہدایت کار مرتضیٰ جیلانی نے کی تھی۔ اس فلم میں سنتوش ، صبیحہ کے ساتھ گلشن آراء نے بھی اداکاری کی تھی۔ انور کمال پاشا کی ہدایت کاری میں سنتوش کے ساتھ 1953ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’’غلام‘‘ میں صبیحہ کا کردار کوبھی خوب پذیرائی ملی۔ فلم کے ہدایت کاروں نے بھی صبیحہ کی خداداد صلاحیتوں کی تعریف کی۔ فلم گمنام 1954ء میں صبیحہ کے کردار کو بھی فلمی شائقین نے سراہا۔ اس فلم کے ہدایت کار انور کمال پاشا تھے۔ یہ فلم ذہنی معذور لڑکی کی کہانی تھی جسے صبیحہ نے بخوبی ادا کیا۔ انہوں نے ایم ایس ڈار کی ہدایتکاری میں بننے والی رومانٹک ، پنجابی فلم ’’دُلا بھٹی 1956ء میںؒ ’’نوراں‘‘ کا کردار ادا کیا ہوا۔ ’’واسطہ ای رب دا توں جاویں وے کبوترا‘‘ آج بھی زبان زدعام ہے۔ صبیحہ کو اپنے وقت کے تمام نامور اداکاروں کے مدمقابل کاسٹ کیا جانے لگا تاہم سنتوش کمار کے ساتھ فلموں میں جوڑی کو سب سے زیادہ پسندکیا جاتا تھا۔
اس دوران صبیحہ اور سنتوش کمار (موسیٰ رضا) نے شادی کا فیصلہ کیا جبکہ سنتوش کمار پہلے ہی سے شادی شدہ تھے۔ صبیحہ اور سنتوش کی فلم وعدہ 1957ء میں مشہور رومانوی فلم ثابت ہوئی۔ اس فلم کی کامیابی کے بعد وہ معروف ترین اداکارہ بن گئیں۔ شیخ چلی 1958ئ، آس پاس 1957ئ، سسی 1954ئ، سوہنی 1955ئ، چھوٹی بیگم 1956ئ، انجمن 1970ء فلم میں بھی ان کے کردار کو بہت پسند کیا گیا۔اس دوران دو قومی گیت جنہیں انہوں نے 1982ء میں انہوں نے پاکستان ٹیلی ویژن کے ایک پروگرام ’’سلور جوبلی‘‘ میں گیت گایا جسے سامعین نے بے حد سراہا بنے۔
’’جُگ جُگ جئے میرا پیارا وطن
لب پہ دعا ہے دل میں لگن
صبیحہ نے فلم موسیقار 1962ء فلم کا گانا ’’یاد کروں تجھے شام سویرے‘‘ پیش کیا۔ آخری دھن ختم ہوتے ہی سامعین کھڑے ہوگئے اور تالیاں بجا کر داد دینے لگے۔ چار دہائیوں تک صبیحہ خانم نے ہر قسم کے کردار ادا کئے اور 200 سے زیادہ فلموں میں کام کرنے کے بعد آہستہ آہستہ سلور سکرین سے دور ہوتی گئیں۔ کچھ عرصہ قبل امریکہ چلی گئیں جہاں ان کا صاحبزادہ اور سب سے چھوٹی صاحبزادی بھی رہائش پذیر تھیں۔ وہ کچھ عرصہ سے علیل تھیں اور یوں 13 جون 2020 کو 84 سال کی عمر میں اس جہان فانی سے کوچ کر گئیں مگر بطور فنکارہ انہوں نے اپنی زندگی میں کام کیا ۔ وہ ہمارے وطن عزیز پاکستان کا ’’اثاثہ‘‘ ہیں۔ صبیحہ خانم کو ان کی صلاحیتوں کے اعتراف میں بے شمار ایوارڈز ملے جن میں نگار ایوارڈ بھی شامل ہے جبکہ حکومت پاکستان نے ان کو صدارتی تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا تھا۔