اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) جسٹس قاضی فائز عیسی کیس میں جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ ایگزیکٹو کو شتر بے مہار کی طرح نہیں چھوڑ سکتے۔ ایگزیکٹو کے اختیارات کا جائزہ لینے کیلئے عدالتی فیصلے میں کچھ چیزوں کا تعین کیا گیا ہے۔ اس طرح تو عدلیہ کی آزادی کا معاملہ ہی ختم ہوجائے گا۔ کیونکہ یہ ایشو عدلیہ کی آزادی کا ہے اور اس ملک کی تاریخ اچھی نہیں رہی۔ انتظامیہ کی جانب سے عدلیہ میں مداخلت ہوتی رہی ہے۔ ہم اپنی کوشش نہیں کریں گے تو تاریخ میں تباہ ہو جائیں گے۔ ہم سوال چیزوں کو سمجھنے کیلئے کرتے ہیں کسی شخص یا ادارے کیخلاف نہیں ہیں۔ سپریم کورٹ میں جج جسٹس قاضی فائز عیسی نے لندن جائیدادوں کا معاملہ ایف بی آر میں بھجوانے سے متعلق رائے کی مخالفت کرتے ہوئے اہلیہ کے ویڈیو بیان ریکارڈ کروانے کی اجازت طلب کرلی۔ دس رکنی فل کورٹ نے ساڑھے 9 بجے کیس کی سماعت کا آغاز کیا تو وفاقی حکومت کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے دلائل کا آغاز کیا اور موقف اپنایا کہ عدالت کے ایک سوال پر صدر مملکت اور وزیراعظم سے مشاورت کی ہے۔ وزیراعظم کہتے ہیں انہیں عدلیہ کا بڑا احترام ہے، ہمیں معاملہ ایف بی آر کو بھیجنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے، ایف بی آر 2 ماہ میں فیصلہ کر لے، فروغ نسیم نے کہاکہ ایف بی آر کے ساتھ درخواست گزار جج اور اہلیہ تعاون کریں، فروغ نسیم نے کہاکہ گزشتہ روز جسٹس قاضی فائز عیسی نے جواب داخل کرایا، جس پر وزیر اعظم نے کہا ہے لندن میں میری ایک پراپرٹی بھی نکلے تو ضبط کر لیں، اور پراپرٹی ضبط کر کے پیسہ قومی خزانے میں ڈال دیں۔ جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ ابھی ہم نے اس جواب کا جائزہ نہیں لیا۔ بدقسمتی ہے دونوں سائیڈز میڈیا سے رجوع کرتی رہی ہیں۔ جسٹس مقبول باقر کا کہنا تھا کل فاضل جج نے اپنے جواب میں نہیں کہا یہ جائیدادیں وزیراعظم کی ہیں، جواب میں ویب سائٹ کے حوالے سے بات کی گئی ہے۔ سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسی کیس میں اس وقت نیا موڑ تب آیا جب جسٹس قاضی فائز خود کمرہ عدالت کے اندر پہنچ گئے اور جسٹس قاضی فائز نے فروغ نسیم کے دلائل کے دوران عدالت سے بات کرنے کی اجازت لی تو جسٹس عمر عطا بندیال نے ان سے کہا کہ جج صاحب آپ آئے ہیں تشریف رکھیں، جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ مجھے میری اہلیہ نے ماسک ہمیشہ پہنے رکھنے کی تلقین کی ہے، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ماسک کی وجہ سے ہم آپ کو ٹھیک سے سن نہیں پا رہے، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے چہرے سے ماسک ہٹا دیا اور کہا کہ اپنی اہلیہ کی تلقین کی خلاف ورزی کر رہا ہوں، جسٹس یحی خان آفریدی کا کہنا تھا کہ یہ قاضی فائز عیسی کا مقدمہ نہیں ہم سب کا مقدمہ ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ شہزاد اکبر نے گزشتہ روز ٹی وی پر آ کر زیر التوا مقدمے پر بات کی، کونسل میں ریفرنس سے بڑا جواب حکومت نے داخل کردیا، حکومتی وکیل نے بتایا کہ اہلیہ سلائی مشین چلاتی ہے جس سے 5 یا 6 ملین پاونڈ آتے ہیں، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ایسی بات نہیں ہے، جسٹس قاضی امین نے اس نقطے پر حکومتی وکیل کو روکا تھا، ہمارے لیے آپ کا بڑا احترام ہے لیکن آپ درخواست گزار ہیں، آپ کے وکیل موثر انداز میں یہ بات کر سکتے ہیں جبکہ آپ جذباتی ہو سکتے ہیں، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ میں جذباتی نہیں ہوں۔ جسٹس قاضی فائزعیسی نے کہا کہ میں آج اپنی اہلیہ کا اہم پیغام لایا ہوں۔ وہ جائیدادوں کے ذرائع بتانا چاہتی ہیں۔ اہلیہ کے والد کو کینسر کا عارضہ لاحق ہے، میری اہلیہ کہتی ہیں کہ ایف بی آر نے ان کی تذلیل کی ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ان کی اہلیہ ویڈیو لنک پر جائیداد سے متعلق بتانا چاہتی ہیں۔ عدالت اہلیہ کو ویڈیو لنک پر موقف دینے کا موقع دے۔ جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کی اہلیہ ہمارے لئے قابل احترام ہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ یہ ایک بڑی پیش رفت ہے۔ اس دوران فروغ نسیم نے کہا کہ جج صاحب سے میری کوئی دشمنی نہیں۔ اگر مناسب جواب دیتے ہیں تو یہ معاملہ ختم ہو جائے گا۔ ہمیں جج صاحب کی پیش کش قبول ہے۔ فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ میں جج صاحب اور ان کی اہلیہ کا بڑا احترا م کرتا ہوں اور میں نے کبھی معزز جج کے بارے میں منفی سوچ نہیں رکھی۔ اس دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ اگر فاضل جج کی اہلیہ جواب دیتی ہیں تو سارا عمل شفاف ہو جائے گا۔ جسٹس قاضی فائز عیسی کے 15منٹ تک دلائل سننے کے بعد ججز مشاورت کیلئے اٹھ گئے اور سماعت میں وقفہ کرتے ہوئے فاضل ججز چیمبر میں چلے گئے۔ وقفہ کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ جج صاحب کے بیان پر غور کیا ہے، جج صاحب نے اہلیہ کی جانب سے بیان دیا۔ جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ فاضل جج کی اہلیہ کا بیان بڑا اہم ہوگا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم آپکی اہلیہ کی زبانی موقف دینے کی پیش کش پر غور کریں گے۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ اہلیہ کے موقف کے باوجود میں اپنی درخواست پر مقدمہ لڑوں گا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جج صاحب ہم آپ کا احترام کرتے ہیں۔ اب آپ تشریف رکھیں اور حکومتی وکیل کو دلائل دینے دیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ میں یہاں جج کی حیثیت سے نہیں آیا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ نے کورٹ کی کارروائی میں مداخلت کی ہے۔ اگر آپ اپنے دلائل اپنے وکیل کے ذریعے دیتے تو بہتر ہوتا۔ عدالت آج اس معاملے پر اپنا حکم تحریر کر دے گی۔ آپ اپنی اہلیہ کا پیغام لے کر آئے لیکن آپ کی اہلیہ کا پیغام ہمارے شیڈول کو متاثر نہیں کرے گا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم اس کیس کو ایف بی آرکو بھیج رہے، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ میں نے حکومتی آفر قبول نہیں کی۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا یہ فل کورٹ کی پروسیڈنگز ہیں، آپ بیٹھ جائیں، 9 ماہ میں ہم نے بھی کیس کی تیاری کی ہے، اس لئے کہتے ہیں کہ ریفرنس میں نقائص ہیں۔ جس کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسی کمرہ عدالت سے چلے گئے۔ دلائل جاری رکھتے ہوئے حکومتی وکیل فروغ نسیم نے کہا کہ ریفرنس کے خلاف درخواست کی قابل سماعت ہونے پر دلائل دوں گا۔ جوڈیشل کونسل کو 29 مئی کو ریفرنس موصول ہوا، جوڈیشل کونسل نے 14 جون کو حکم جاری کیا۔ فاضل جج نے 28 جون کو اپنا جواب جوڈیشل کونسل میں داخل کیا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم چاہتے تھے کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ تحریری جواب کے ساتھ دستاویزات دے دیں، جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ کو ویڈیو لنک پر بیان دینے کا موقع دینا یا نہیں فیصلہ کل ہوگا، منیر اے ملک اپنے موکل سے پوچھ کر بتا دیں گے بیگم صاحبہ کے ویڈیو بیان کا دورانیہ کتنا ہوگا۔ اس پر منیر ملک نے کہا کہ جس قسم کی مہم میرے موکل کیخلاف ہوئی اسکے بعد وہ میرٹ پر فیصلہ چاہتے ہیں۔ عدالتی وقت ختم ہونے پر کیس کی سماعت آج تک ملتوی کردی گئی ہے۔