ترقی کے اس دور میں
نہ فکر میں نہ غور میں
کہنے کو اک مسیحا ہے
اوروں کے لئے ہی جیا ہے
مفاد اپنا سب سے اعلی ہے
شرفاء کے لب پہ تالا ہے
اندھے بہروں کی بستی ہے
ہر شے مہنگی عزت سستی ہے
اس دور کے اکثر شرفاء بھی
طاقتور بھی امراء بھی
اصل میں بہروپیا ہیں
سادہ دل انسانوں کو
کیسے جھانسہ دیتے ہیں
ہر بار لفظ بدل کر
بہروپیا آ جاتے ہیں
سب سے آساں ہے یہ کام
ڈبل ملے جو لگے ہے دام
چند جذباتی تقریروں سے
ایوانوں میں یہ بیٹھے ہیں
میں بھی بہروپیا بن جائوں
ساری دنیا میں چھا جائوں
بات ہے بس اتنی سی
ضمیر کو مارنا پڑے گا
جھوٹ موٹ کا دھاڑنا پڑے گا
چہرے پہ جھوٹی مسکراہٹ لئے
جیت کے ہارنا پڑے گا
لوگوں کے دل کی بات کر کے
بہروپیا بن جائوں گا
لہو پی کے غریبوں کا
مسیحا کہلائوں گا
خالی کھوکھلی باتوں سے
سب کو بہلائوں گا
بہروپیا بن جائوں گا
ندیم اختر میو… گیلے وال