پیر ثقلین حیدر چوراہی
جب سیدنا ابراہیم ؑ کو دعوتِ توحید دینے اور بتوں کو توڑنے کی پاداش میں آسمان سے باتیں کرتی ہوئی آگ میں پھینکا جارہا تھا تو سیدنا جبرائیل اور بارش کا فرشتہ حاضر ہوئے اور عرض کی کر کیا ہمارے لیے کوئی حکم ہے ؟ تو فرمایا ـ،میں اپنے رب کا محتاج ہوں میرے لیے میرا رب کافی ہے ‘‘۔ اور پھر چشم فلک نے دیکھا کہ آگ ٹھنڈی کر دی گئی ، یہ ہے اپنے رب پر کا مل اعتماد اور بھروسہ اور توکل بھی اِسی کا نام ہے ۔ جو لوگ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں تو اللہ کریم اِن کے جملہ انوار کا کفیل ہو جاتا ہے حالات اور مشکلات کودیکھ کر اُن کے قدم ڈگمگاتے اور اُن کے حوصلے پست ہوتے ہیں جن کا توکل کمزور ہوتا ہے۔ کمزور توکل والے ہمیشہ بے چین مضطرب حالا ت سے نالاں نظر آتے ہیں اور اللہ کریم پر مضبوط توکل والے ہمیشہ مطمئن،آسودہ اور خوشحال نظر آتے ہیں جب اعتماد اِتنا پختہ ہو جائے اور یقین اِتنا کامل ہو جائے کہ نگاہ صرف اُسی کے کرم پر جاٹھرے تو پھر دشوار سے دشوارمرحلہ بھی آسان ہو جایا کرتا ہے ۔
زندگی وموت ، بیماری وتندرستی اور ترقی و تنزلی ہر چیزاُسی کے قبضہ قدرت میں ہے جسے وہ عزت کا تاج پہنا دے تو کوئی اُسے اتارنہیں سکتا اور جسے وہ عظمت کے تخت سے اتار دے کوئی اور اُسے بٹھا نہیں سکتا۔
اللہ کریم کے نیک بندوں کی کتاب حیات کو اٹھا کردیکھیں تو اس کا ایک ایک صفحہ توکل سے عبارت ہے۔ جب توکل مضبوط ہوتا ہے تو سمندروں میں راستے بن جاتے ہیں۔ پہاڑ جگہ چھوڑت دیتے ہیں۔ موسموں کے تیور بدل جاتے ہیں اور طوفان بھی اپنی سمت تبدیل کر لیتے ہیں۔ ذرا سیدنا موسیٰ ؑ کی زندگی کے اُن لمحوں کے دیکھیے کہ جب فرعون کا لشکر آپ کے قریب پہنچا اور آپؑ کے ساتھیوں کی نظر جب فوج کے سیلاب پر پڑی تو کہنے لگے کہ ہم پکڑ لیے گئے مگر اللہ کے کلیم نے کمال استقامت سے جواب دیا کہ ’’میرا للہ میرے ساتھ ہے ‘‘
اب ذرا اِک لمحے کے لیے سوچیے کہ پیچھے فوج ہے اور سامنے حد نظر تک پانی کی بپھری موجیں ہیں اور بظاہر اس صورتحال سے نکلنے کے لیے کوئی ذرائع اور وسائل نظر نہیں آ رہے مگر سیدنا موسیٰؑ کی نگاہ اپنے رَب پر ہے اور اُسی سے مدد مانگ رہے ہیں پھر قدرت خداوندی پانی میں راستے بنوا کر عقل و دانش کو حیران کر کے نا ممکن کو ممکن بنا دیتی ہے۔ وہ رَب ہی ہے جو زندہ سے مردہ اور مردہ سے زندہ کو نکال دیتا ہے۔ جو اگر نہ چاہے تو سمندر کی گہرائی بھی انسان کو مار نہیں سکتی اور کوئی بیماری نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ اگر وہ نہ چاہے تو کوئی رزق دے نہیں سکتا اور وہ نہ چاہے تو کوئی رزق روک نہیں سکتا وہ ایسی جگہ سے رزق عطا فرما دیتا ہے جہاں سے انسان کا گمان بھی نہیں ہوتا۔ اگر وہ نہ چاہے تو کوئی بڑی سے بڑی طاقت آپ کے حوصلوں کو متزلزل نہیں کر سکتی۔ آپ کو منزل پر پہنچنے سے روک نہیں سکتی۔ جہاں تک آپ کی نگاہ جاتی ہے اگر وہاں تک کوئی آپ کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر دے۔ مشکلات کے پہاڑ کھڑے کر دے تو اگر آپ کا توکل مضبوط ہے تو اللہ کریم آپ کو اتنی ہمت، طاقت اور قوت عطا فرما دے گا کہ آپ ان تمام رکاوٹون کو روند کر گزر جائیں گے اور یا جوں جوں آپ منزل کے قریب پہنچتے جائیں گے رکاوٹیں خود بخود ہٹتی جائیں گیں۔
کائنات کی سب سے عظیم ترین ہستی نبی پاکؐ کی پوری حیات ِ طیبہ کے شب و روز میں توکل علی اللہ بڑا نمایاں اور واضح نظر آتا ہے، ایسے لمحات بھی نظر آتے ہیں جہاں مصائب اور تکالیف کا اک سیل ِ رواں ہوتا ہے۔ دنیاوی اسباب کی کوئی صورت نظر نہیں آتی مگر پھر بھی آپ ؐنے اپنے رب کی رحمت کے بھروسے پر اپنی محنت کو جاری رکھا اور پھر یہی توکل اور محنت اس انداز سے رنگ لائی کہ چمنستان ِ عالم کا منظر ہی تبدیل ہوگیا۔
آج ہمارے توکل کی کمی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جب ہم پر کوئی مشکل آتی ہے یا مالی پریشانی دامن گیر ہوتی ہے اور ہماری کوئی ضرورت پوری نہیں ہو رہی ہوتی تو ہم اپنے آقا و مولا ؐکے مبارک عمل، مبارک ارشادات پر عمل کرنے کی بجائے کسی ایسی طلسماتی، کرشماتی اور کراماتی شخصیت کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں جو چشم ِ زدن میں ہمارا مسئلہ حل کر دے، خود ہی استخارہ کرنے اور وظیفہ پڑھنے کے بعد ہماری ضرورتوں کا حل بتا دے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں بہت سے ایسے افراد مل جاتے ہیں جو دولت کمانے کی غرض سے غلط بیانی کر کے ہمیں صحیح سمت جانے والے راستے سے ہٹا دیتے ہیں۔ اگر کسی بھی پریشانی کی صورت میں ہم باوضو ہو کر، دو رکعت نمازِ استخارہ ادا کریں۔ نوافل اور تلاوت ِ قرآن ِ مجید کریں اور پھر وہ دعائیں اور وہ وظائف جو ہمارے آقا کریم ؐنے مختلف مواقع پر پڑھنے کے لیے ہمیں عطا فرمائے ہیں اُن کو پھر پڑھیں اور پھر ہو سکے تو اپنی بساط کے مطابق اپنے ہاتھ سے صدقہ کریں اور پھر دامن ِ توکل کو مضبوطی سے پکڑ کر اپنے مالک کی بارگاہ میں جھولی پھیلائیں اور دیکھیں کہ توکل کے رنگ کیسے بہار دکھاتے ہیں اور اس کی رحمتوں اور برکتوں کی بارش کس طرح موسلا دھار برستی ہے ۔
ہمیں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنا توکل نہیں بلکہ محنت کرنا، رزق حلال کمانے کے لیے کوشش کرنا اور کسی منزل کو پانے کے لیے تمام ذرائع بروئے کار لا کر نتیجہ اپنے مالک پر چھوڑ دینا توکل کہلائے گا۔ سرکارِ دو عالم ؐکی بارگاہ اقدس میں کسی نے عرض کی کہ کیا میں اونٹ کو آزاد چھوڑ دوں اور اللہ پر توکل کریں تو فرمایا اِسے باندھ دو پھر توکل کرو۔