مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی
’’حضرت نواس بن سمعانؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہؐ سے سوال کیا کہ نیکی اور گناہ کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا:نیکی اچھے اخلاق کا نام ہے اور گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے اور تم اس بات کو برا سمجھو کہ لوگ اس پر مطلع ہوں۔‘‘(رواہ مسلم)
اس حدیث میں رسول اللہؐ سے دو سوال کئے گئے ایک نیکی کے بارے میں اور دوسرا گناہ کے بارے میں۔اسلامی تعلیمات میں نیکی اور گناہ کے لیے بنیادی اصول یہ ہے کہ جو عمل اللہ تعالیٰ اور رسول اللہؐ کے احکام کے مطابق ہو وہ نیکی ہے اور اگر اس کے خلاف ہوتو وہ گناہ ہے۔ حتیٰ کہ عبادات جو کہ سراسر نیکی ہیں اگر وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کے خلاف کی جائے تو بجائے نیکی کے گناہ کا سبب بن جاتا ہے مثلاً نماز پڑھنا بہت بڑی عبادت ہے لیکن سورج کے طلوع ہوتے وقت‘ غروب ہوتے وقت نماز پڑھنا مکروہ ہے اگرکوئی شخص ان مکروہ ا وقات میں نماز پڑھے تو وہ گناہ کا سبب بن جائے گا۔ اسی طرح روزہ رکھنا عظیم عبادت ہے لیکن عید کے دن چونکہ روزہ رکھنا ممنوع ہے اس لئے اگر عید کے دن روزہ رکھا تو یہ گناہ کا سبب ہوگا۔ اس سے معلوم ہوا کہ نیکی اصل میں اطاعت الٰہی کا نام ہے اللہ رب العزت نے اسلام کے ذریعہ ہمیں اچھے اخلاق کی تعلیم دی حسن خلق یعنی لوگوں سے اچھا برتاؤ کرنا بہت بڑی نیکی ہے۔
علامہ خازن اپنی تفسیر میں حسن خلق کے اجزاء بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ لوگوں سے محبت کرنا‘ معاملات کی درستگی ، اپنوں اور بیگانوں سے اچھے تعلقات رکھنا‘ سخاوت کرنا، بخل اور حرص سے پرہیز کرنا‘ تکلیف پہنچنے پر صبر کرنا، اور ادب واحترام کے تقاضوں کو پورا کرنا۔ امام غزالی ؒنے حسن خلق کے بارے میں بڑی قیمتی بات کہی فرماتے ہیں۔’’حسن خلق کا ثمرہ الفت ہے اور برے اخلاق کا پھل بیگانگی اور دلوں کی دوری ہے۔‘‘
دراصل اچھے اخلاق سے لوگوں کو فائدہ ہی پہنچے گا اور نیکی وہی ہوسکتی ہے جس سے مخلوق کو فائدہ پہنچے جب لوگوں کو کسی کام سے فائدہ پہنچتا ہے تووہ اس کام کو پسند کرتے ہیں اور خود کام کرنے والا بھی اس بات کو فطری طور پر چاہتا ہے کہ میرے اچھے کام لوگوں کو معلوم ہوں چنانچہ رسول اللہ ؐ نے نیکی کے برعکس گناہ کی پہچان یہ بتائی کہ گناہ وہ عمل ہے جس کے کرنے کے بعد آدمی دل کے اندر کھٹکا محسوس کرے حقیقت یہی ہے کہ مومن کا دل ہی نیکی اور بدی کی کسوٹی ہے جب انسان سے برا کام سرزد ہوجاتا ہے تو پھر وہ یہ بھی نہیں چاہتا کہ لوگوں کو میرا یہ براکام معلوم ہو اور وہ اسے چھپانے کی کوشش میں لگارہتا ہے لیکن اب ایک بات ذہن میں پیدا ہوتی ہے کہ بہت سے لوگ رشوت لیتے ہیں اور سر عام خود کہہ کرلیتے ہیں اور اس کا اعتراف بھی کرتے ہیں اور ان کا دل بھی رشوت لینے کو برا نہیں سمجھتا تو پھر کیا یہ کام برا نہ ہوا اس بات کی وضاحت کے لیے ایک بات ضرور ذہن میں رکھنی چاہئے کہ جس دل کا ذکر رسول اللہ ؐ نے فرمایا ہے اس سے مراد قلب سلیم یعنی تندرست دل مراد ہے بیمار دل مراد نہیں اور بیمار دل وہ ہوتا ہے جو نیکی اور گناہ میں تمیز نہ کرسکے۔ جیسے تندرست زبان کے ذریعہ آپ میٹھے اور کڑوے کو بالکل صحیح طور پر معلوم کرسکتے ہیں لیکن جس شخص کو بخار ہوجائے تو پھر اسے چینی بھی کھلائیں تو وہ اسے کڑوی محسوس ہوگی۔ اسی طرح تندرست دل وہ ہوتا ہے جو گناہ کاعادی نہ ہو جب انسان کو کسی گناہ کی عادت پڑ جائے تو پھر اس کا دل بیمار ہوجاتا ہے کیونکہ اس کے دل کے اندر گناہ کو گناہ سمجھنے کا احساس ہی ختم ہوجاتا ہے۔
اب مثال کے طور پر رشوت کے گناہ کا تذکرہ ہوا تو کسی ایسے شخص کو دیکھئے جس نے کبھی رشوت نہ لی ہو‘ اگر کوئی شخص زبردستی اسے رشوت دینے کی کوشش کرے تو وہ لینے سے انکار کرے گا بہت اصرار ہوا تو جب وہ لینے کے لیے ہاتھ بڑھا رہا ہوتو آپ غور سے دیکھئے اس کے ہاتھ کا نپ رہے ہوں گے‘ دل کی دھڑکن تیز ہوجائے گی اور سردی کے موسم میں بھی اس کی پیشانی پر پسینے کے قطرے نظر آئیں گے اور وہ شخص اِدھر اُدھر دیکھ رہا ہوگا کہ کوئی مجھے رشوت لیتے ہوئے دیکھ تو نہیں رہا۔ یہ سب کیفیات بتارہی ہیں کہ اس کے دل میں رشوت سے نفرت ہے لیکن خدا نہ کرے اس شخص کو شیطان نے بہکادیا اب وہ رشوت لینے کا عادی ہوگیا تو پھر اب اس کے دل میں وہ رکاوٹ اور کھٹکا ختم ہوجائے گا اس لیے دل کو تندرست رکھنے کے لیے سب سے بڑی پابندی یہ اختیار کرنی ہوگی کہ وہ انسان کسی بھی گناہ کا عادی نہ ہونے پائے اور گناہ کی عادت سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ جب گناہ سرزد ہو فوراًاللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لے تو بہ اور استغفار کرے بس یہ شخص اس گناہ کا عادی نہیں بن سکتا۔اللہ تعالیٰ ہمیں اچھے اخلاق سے آراستہ ہونے اور گناہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور ایسا قلب سلیم عطا فرمادے جو نیکی اور گناہ میں پہچان کرلیا کرے۔