مکتوب بیلجئیم
وقار ملک
پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت نے اپنے دور حکومت میں ہمیشہ ترقیاتی کاموں کی طرف توجہ دی اورسیز پاکستانیوں کے مسائل کے حل کے لیے ایسے اقدامات کیے جس کا آج بھی طوطی بولتا ہے پنجاب میں اورسیز کے کمشنر افضال بھٹی کی خدمات پر مثالیں دی جاتیں ہیں جنھوں نے ڈنکے کی چوٹ پر اورسیز کا ساتھ نبھایا اور مسائل حل کیے وزیراعلی پنجاب میاں شھباز شریف پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ ملکی ترقی کے ضروری ہے کہ جمہوریت اور ووٹ کو اہمیت دی جائے حکومتوں کو پورا وقت دیا جائے تاکہ وہ اپنا آپ دیکھا سکیں اور عوام کے مسائل حل کر سکیں کیونکہ کسی بھی ملک کی ترقی میں جمہوریت کا کردار بہت اہم ہوتاہے۔ پاکستان میں آزادی سے لیکر آج تک جمہوریت مسلسل بحرانوں کا شکار ہی رہی ہے۔ جمہوریت کی مضبوطی میں اور بہت سے عناصر کے علاوہ سیاسی جماعتوں کاکردار بھی بہت اہم ہوتاہے چونکہ جمہوری عمل تواتر کے ساتھ تعطل کا شکار رہے ہیں اور جو تھوڑی بہت جمہوریت چلی ہے اسے بھی صحیح معنوں میں جمہوریت نہیں کہاجاسکتا، اس سارے عمل کی وجہ سے سیاسی جماعتیں بھی بہت حد تک متاثر ہوئی ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں حقیقی جمہوری کلچر پروان نہیں چڑھ سکا۔ ہمارے ہاں سیاست زیادہ تر شخصیات کے گرد ہی گھومتی رہی ہے اس کا نتیجہ یہ نکلتا رہاہے کہ جب سے بڑا سیاسی لیڈر جس کے گرد اسکی ساری جماعت ہوتی ہے وہ پردہ سکرین سے اوجھل ہوتاہے تو پوری جماعت ہی زمین بوس ہوجاتی ہے۔ سیاسی سکرین اپنی جماعتوں کے اندر جمہوری کلچر کو پروان چڑھاتے اور تنظیم سازی پر توجہ نہیں دیتے۔ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں حزب اختلاف میں ہوتی ہیں توکارکنوں کی مرہون منت ہوتی ہیں انکے پیچھے پھرتی ہیں مگر اقتدار میں ا?نے کے بعد ان کو کوئی پوچھتا بھی نہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو ایک ہردلعزیز عوامی لیڈر تھے جنہوں نے پاکستان کی سیاست کو ایک نیا رخ دیا مگر ان کے جانے کے بعد پیپلزپارٹی کافی بحرانوں کا شکار رہی جب تک کہ بے نظیر بھٹو نے دوبارہ اسے عوامی مقبولیت کی بلندیوں پر نہیں پہنچا دیا مگر انکی المناک موت کے بعد پیپلزپارٹی جوکہ ملک کی سب سے بڑی وفاقی سیاسی جماعت تھی اب صرف ایک صوبے تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ اسی طرح تحریک انصاف جس نے تبدیلی اور جمہوریت کے علمبردار ہونے کا پرچم اٹھایا تھا وہ بھی ا?ج حکومت میں ہونے کے باوجود تنظیمی طور پر سکڑتی نظر آتی ہے اس کا وجود بھی عمران خان کی ذات تک ہی محدود ہے عوام کو ریلیف دینے میں بری طرح ناکام ہے اورسیز پریشان حال کوئی پرسان حال نہیں کسی کا کوئی مسل? حل کرنے کو تیار نہیں عوام مہنگائی سے دل برداشتہ اور ن لیگ کی حکومت کو یاد کرنے لگے ہیں گلی محلوں کوچوں میں عمران حکومت کے خلاف باتیں کانوں کو سنائی دینے لگیں حتی کہ اورسیز بھی مایوسی کا شکار ہیں جماعتوں کے اندر بھی وراثت اور ا?مرانہ سوچ جاری ہے جس کا فائدہ بہرحال غیرجمہوری قوتوں کو ہی ملتاہے جس کی وجہ سے انکا نشانہ بھی پارٹی کا لیڈر ہی ہوتاہے اسے کسی طرح سے ہٹا دو تو پوری کی پوری سیاسی جماعت ہی زمین بوس ہوجاتی ہے۔ جب تک سیاسی قیادت اپنی جماعتوں کے اندر جمہوری سوچ اور کلچر کو فروغ نہیں دیگی اور تنظیم سازی پر توجہ نہیں دیگی جس سے کارکنوں کو عزت اور اہمیت مل سکے یہ جماعتیں کبھی بھی مضبوط نہیں ہونگی اور اسی طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہیں گی جمہوری حکومت کا ایجنڈا یہی ہونا چاہیے کہ پچھلی حکومت کی جو اچھی پالیسی یا حکمت عملی ہے اس میں نئے احکامات کی روشنی میں اسے جاری رکھنے پر ہم زیادہ مثبت نتائج حاصل کرسکتے ہیں۔جمہوریت کا مقصد ہی یہ ہے کہ ہم تعصبانہ رویے سے خود کو محفوظ رکھ کر عوام کی ترقی کیلئے بہتر کام کرسکیں جس طرح میں مسلم لیگ ن نے بے نظیر بھٹو اِنکم سپورٹ کو جاری رکھا اور اسے کامیابی کی طرف گامزن کیآ عوام کا اعتماد بڑھا اور پالیسی مضبوط اور کامیاب ہوئی لیکن اب اس پالیسی کو تبدیل کر کے نیا نام اور انتظامیہ بٹھا دی گئی جو نئے سرے سے کام کا آغاز کرے گی جس سے مشکلات بڑھیں گی حکومت اورسیز کے حق میں بڑے بڑے دعوے کرتی ہے لیکن اورسیز کے لیےسابقہ حکومت میں بنایا گیا ادارہ پنجاب اورسیز کمیشن عملا ختم کر دیا گیا جبکہ او پی ایف بھی ساکت ہے کسی قسم کی آواز سنائی نہیں دے رہی اس طرح عوام کو ریلیف نہیں مل سکے گا اور نہ ہی مایوسی کے شکار عوام خوشحال ہوں گے ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کو ترقی کی طرف گامزن کرنے کے لیے مثبت رویوں کااظھار کیا جائے سیاسی بنیادوں پر بنا گے مقدمات ختم کیے جائیں ہر پاکستانی کو یہ حق دیا جانا چائیے کہ وہ پاکستان کی ترقی میں کردار ادا کرے کسی کو ملک بدر نہ کیا جا? حق اور انصاف پر مبنی پالیسیاں بنائی جائیں نیب کے ذریعے سیاسی مقدمات وہ بھی صرف اور صرف مخالفین پر بنا? جاتے ہیں ایسا کرنے سے گریز کیا جا? تاکہ ملک پاکستان کو ایشیاء کا ٹائیگر بنایا جا سکے اور قوم کو ایک محب وطن قوم بنایا جا سکے نوجوان نسل کو ایک قوم± بنانے کے لیے قربانیاں دینا ہوں گی انھیں پاکستان کے ساتھ قربت کے لیے سکھانا ہو گا تاکہ ہم ایک قوم بن سکیں یاد رکھیں ایک قوم بننا اور بنانا انتہائی مشکل کام ہے جس کے لیے اپنا دل بڑا اور ذہن کھولنا ہو گا اپنوں کو اپنے ساتھ لگانا ہو گا دل سے قدورتیں ختم کرنا ہوں گی پیار محبت کے پھول نچھاور کرنا ہوں گے۔ تاکہ ایک قوم بن کر ترقی اور خوشحالی کی طرف گامزن ہو سکیں۔