ڈاکٹر جمیل جالبی کی علمی و ادبی خدمات پر پنجاب یونیورسٹی میں سیمینار

Jun 18, 2022

ڈاکٹر عاطف خالد بٹ

جامعہ پنجاب کے اورینٹل کالج میں ادارۂ زبان و ادبیاتِ اردو اور مسندِ جمیل جالبی کے زیرِ اہتمام نامور محقق، ادیب، مترجم اور نقاد ڈاکٹر جمیل جالبی کے علمی و ادبی خدمات پر ایک قومی سیمینار کا اہتمام کیا گیا۔جس کا مقصد  عہد حاضر کی نوجوان نسل ،طلبہ و طالبات کوان کے کارناموں سے آگاہ کرنے تھا۔ اس سیمینار میں جامعہ پنجاب، جی سی یونیورسٹی لاہور، یونیورسٹی آف سرگودھا اور گورنمنٹ ایم اے او کالج لاہور کے اساتذہ نے جمیل جالبی کی علمی و ادبی خدمات سے متعلق  اظہار خیال کرتے ہوئے انھیں خراجِ عقیدت پیش کیا۔ سیمینار کی صدارت اردو زبان و ادب کے معروف استاد اور پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر ایمریطس ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا نے کی جبکہ نظامت کے فرائض مسندِ جمیل جالبی کے صدر نشین پروفیسر ڈاکٹر ضیاء الحسن نے انجام دیے۔ ڈاکٹر ضیاء الحسن نے اس موقع پر اپنی گفتگو کے دوران جمیل جالبی کے علمی و ادبی کارناموں کی اہمیت بھی اجاگر کی۔ سیمینار میں پنجاب یونیورسٹی کے علاوہ ایم اے او کالج کے طلبہ نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
سیمینار میں استقبالیہ کلمات پیش کرتے ہوئے ادارۂ زبان و ادبیاتِ اردو ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر محمد کامران نے کہا کہ جمیل جالبی اردو ادب کی بڑی ہستی ہیں۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کے ادبی کارناموں پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ان کا کام مختلف جہتوں میں پھیلا ہوا ہے جسے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی علم و ادب کی خدمت کے لیے وقف کی ہوئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ادب کی تاریخ، ترجمہ نگاری، تنقید اور لغت سازی کے حوالے سے ان کی خدمات مسلمہ ہیں۔ اس موقع پر ڈاکٹر محمد نعیم ورک نے جمیل جالبی کی علمی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک ایسی علمی، ادبی اور تہذیبی شخصیت تھے جس نے اردو ادب کے دائرے میں وسعت پیدا کرنے کے لیے کردار ادا کیا۔
یونیورسٹی آف سرگودھا سے سیمینار میں شرکت کرنے والے ڈاکٹر ساجد جاوید نے جمیل جالبی کی تاریخِ ادبِ اردو کی چاروں جلدوں کا تنقیدی جائزہ پیش کیا۔ اس جائزے کے دوران انھوں نے طلبہ کو اس کی اہمیت سے آگاہ کیاکہ اردو زبان و ادب کی تاریخ کو محفوظ کرنے کے حوالے سے  ان کی یہ خدمت بلا شبہ تاریخی اور گرانقدر اہمیت کی حامل ہے۔ اس موقع پر سرگودھا یونیورسٹی کے شعبۂ اردو سے وابستہ ڈاکٹر شاہد نواز نے جمیل جالبی کی تاریخِ ادب میں پیش کیے گئے داستانوی ادب اور ناولوں پر تفصیل سے بات کی۔ انھوں نے سیمینار میں شریک طلبہ کو بتایا کہ ڈاکٹر جمیل جالبی نے کتنی عرق ریزی سے اس کام کو انجام دیا اور اس کے ذریعے اردو ادب کے ایسے پہلوؤں کو روشن کیا جن کے بارے میں پہلے زیادہ معلومات دستیاب نہیں تھیں۔
شعبۂ اردو جی سی یونیورسٹی لاہور سے منسلک پروفیسر ڈاکٹر خالد سنجرانی نے جمیل جالبی کی تاریخِ ادبِ اردو کے اسلوب اور اس میں پیش کی گئی ادوار کی تقسیم پر اظہارِ خیال کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر جمیل جالبی یہ کارنامہ انجام دے کر خود کو اردو ادب کی تاریخ میں ایسا مقام دلانے میں کامیاب ہوگئے ہیں جسے ہمیشہ ایک اہم حوالے کے طور پر پیش کیا جائے گا۔ ایم اے او کالج کے شعبۂ نفسیات کے سربراہ ڈاکٹر امجد طفیل نے جمیل جالبی کی تنقیدی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے انھیں خراجِ عقیدت پیش کیا۔ انھوں نے کہا کہ اردو تنقید نگاری کے حوالے سے ڈاکٹر جمیل جالبی کا نام بہت اہمیت کا حامل ہے اور ان کی تحریریں نئے لکھنے والوں کی رہنمائی کا کام بھی کرتی ہیں۔
اس موقع پر پروفیسر ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا نے جمیل جالبی کے علمی و ادبی سرمایے پر سیر حاصل بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ جمیل جالبی کی تاریخِ ادبِ اردو بلاشبہ اردو کی بہترین ادبی تاریخ ہے مگر اس کا تنقیدی جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ ادب کی تاریخ کو سمجھنے کے لیے نیا تناظر مہیا ہوسکے۔ انھوں نے ڈاکٹر جمیل جالبی کی تاریخِ ادب کے مختلف گوشوں پر تفصیل سے بات کرتے ہوئے ان نکات کی وضاحت بھی کی جنھیں سامنے رکھ کر طلبہ کو زبان و ادب کی تاریخ پڑھائی جانی چاہیے۔ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا نے کہا کہ جمیل جالبی کے علمی و ادبی کارناموں کی تمام جہتوں پر گہری نظر ڈالنے کی ضرورت ہے تاکہ اس کام کی حقیقی اہمیت کو اجاگر کر کے طلبہ کے سامنے لایا جاسکے۔

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

مزیدخبریں