گزشتہ تین ہفتوں کے دوران پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کے نرخوں میں غیر معمولی اضافے کے ’آفٹر شاکس‘ اور شتر بے مہار مہنگائی سے زندہ درگور ہوئے جاتے عوام کی چیخیںا قتدار کے ایوانوں تک پہنچ گئی ہیںاور اب اعلیٰ حکام بھی یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ مہنگائی کا جو طوفان صرف چند ہفتوں کے دوران اٹھا ہے اس سے عام آدمی جس بری طرح متاثر ہوا ہے۔ اس کا اندازہ شاید پہلے نہیں تھا، اس کا ثبوت یہ ہے کہ حکام نے اب قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ کرنے کی توجیہات بیان کرنا اور اپنے فیصلوں کی وضاحتیں دینا شروع کر دیا۔ جمعرات کے روز وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ سابق حکومت نے عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے ساتھ اب تک کا بدترین معاہدہ کیا۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے عوام کے متاثر ہونے کا احساس ہے لیکن اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کی سابق حکومت اور آئی ایم ایف کی ڈیل کے باعث موجودہ حکومت کے پاس پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ انھوں نے کہا کہ جنھوں نے آئی ایم ایف کے ساتھ اب تک کا بدترین معاہدہ کیا اور انتہائی غلط معاش فیصلے کیے کیا وہ سچ کا سامنا کرنے کی ہمت رکھتے ہیں؟ گزشتہ چار سالوں میں ترقی کا سفر مجرمانہ غفلت کے نتیجے میں روکا گیا۔
سینیٹ اور قومی اسمبلی میں بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے اوراس کے نتیجے میں ہونے والی مہنگائی کے حوالے سے حکومتی فیصلوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ارکان کا کہنا تھا کہ گزشتہ بجٹ میں اپوزیشن جماعتوں کے ارکان کے دلوں میں عوام کا درد تھا، اب حکومت میں آنے کے بعد وہ جذبہ کیوں کم ہوگیا ہے ۔صرف بیس دنوں میں پٹرولیم کی قیمتوں میں 84 روپے اور ڈیزل کی قیمتوں میں 120 روپے فی لٹر اضافہ اور بجلی کے نرخوں میں 16 روپے فی یونٹ سے بڑھا کر تقریباً تیس روپے فی یونٹ کرنا معاشی قتل کے مترادف ہے ۔ اس میں تو کسی شک و شبے کی گنجائش نہیں کہ موجودہ مہنگائی آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدوں ہی کا باعث ہے لیکن عوام کو اس جواز سے مطمئن کرنا ممکن نہیں۔ انھیں تو اس بات سے غرض ہے کہ ان کو دو وقت کی روٹی آسانی سے ملتی رہے اوران کی زندگی کی گاڑی کسی الجھن یا رکاوٹ کے بغیر چلتی رہے ۔
جس بدترین معاہدے کو موجودہ حکومت مہنگائی کا ذمہ دار ٹھہرا رہی ہے یہ معاہدہ 2019 ء میں اس وقت کے وزیر خزانہ حفیظ شیخ نے آئی ایم ایف سے کیا تھا اور اس وقت کی اپوزیشن کے رہنمائوں شہباز شریف، شاہد خاقان عباسی، مریم نواز اور احسن اقبال نے اس کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ ان رہنمائوں کی مذکورہ معاہدے پر سخت تنقید اس امر کا ثبوت ہے کہ حکومت میں آنے سے پہلے وہ اس معاہدے کے مضمرات سے آگاہ تھے اور اس لحاظ سے ملکی معیشت کی جو حقیقی صورتحال تھی وہ بھی ان کے علم میں تھی۔ اس لیے ضروری تھا کہ وہ معاشی حوالے سے فیصلے کرنے سے پہلے اس معاہدے کی تفصیلات قوم کے سامنے لاتے اور پھر اس کو مدنظر رکھنے کے بعد کوئی فیصلے کرتے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ ملک کے معاشی حالات محض گزشتہ حکومت کی ناقص پالیسیوں کا شاخسانہ تھے، قرین انصاف نہیں بلکہ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام اور سعودی معیشت جس نے گزشتہ نصف صدی سے عوام کو اپنے شکنجے میں کس رکھا ہے اور آئی ایم ایف اور عالمی بنک جن کے ذریعے ملکوں کو قرضوں کے ذریعے زیر دام لایا جاتا ہے اسی نظام ہی کے ٹولز ہیں۔
بظاہر یہ قرضے کسی ملک کی معیشت کو سدھارنے کے نام پر دیے جاتے ہیں لیکن ان قرضوں کے ساتھ جو شرائط نتھی کی جاتی ہیں وہ گلے کا طوق بن کر رہ جاتی ہیں۔ اصل زر تو برقرار رہتا ہے لیکن سود در سود کی ادائیگی معیشت کی کمر توڑ کے رکھ دیتی ہے۔ پاکستان جیسا ملک جس کی معیشت اپنے قیام کے ابتدائی 2 عشروں تک ترقی کی منزلیں طے کرتی جا رہی تھی۔ ملک کو معاشی استحکام حاصل تھا اور وہ اس پوزیشن میں تھا کہ دوسرے ممالک کو قرض دے سکے ، آئی ایم ایف کے آہنی پنجوں میں جانے کے بعد سے آج تک اس سے نجات پانا تو دور کی بات اس میں مسلسل پھنستا چلا جا رہا ہے۔ علاوہ ازیں، گزشتہ چند برسوں سے عالمی سطح پر بھی ا یسے حالات و واقعات وقوع پذیر ہوئے جنھوں نے ترقی پذیر ہی نہیں بلکہ ترقی یافتہ ملکوں کی معیشت پر بھی منفی اثرات مرتب کیے جن میں کووڈ 19 سب سے بڑی وجہ سے ہے۔ اس وبا نے دیکھتے ہی دیکھتے نصف سے زیادہ دنیا کے ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ لاکھوں جانوں کا ضیاع ہوا اور اربوں روپے کا نقصان ہوا۔ پاکستان کا اس وباء سے متاثر ہونا بھی ایک فطری امر تھا، گو کہ دیگر ممالک کی نسبت پاکستان میں جانی اور مالی نقصان خاصا کم ہوا لیکن معیشت کو بہر حال شدید دھچکا لگا ۔
افغانستان سے امریکا اور اس کی اتحادی افواج کی شرمناک انداز میں پسپائی اور واپسی کا ملبہ بھی پاکستان پر ناجائز طور پر ڈالا گیا۔ چنانچہ امریکا نہ صرف خود پاکستان کی حکومت سے نالاں رہا بلکہ اس نے اپنے زیر کنٹرول آئی ایم ایف کے ذریعے بھی پاکستان کو زچ کرنے کے طریقے اپنائے۔ پھر بدقسمتی سے روس اور یوکرائن کے درمیان چھڑ جانے والی جنگ نے بھی عالمی سطح پر پٹرول ، گیس اور گندم کا بحران کھڑا کردیا جن ملکوں کی قیادت نے ہوش مندی اور تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے آنے والے مسائل کا ادراک کیا اور بروقت فیصلے کیے وہ بہتر رہے جبکہ پاکستان جیسے ملک بے خبری اور بے بصیرتی کے باعث مسائل میں گھر گئے۔ سو موجودہ ملکی معاشی صورتحال کو ان عالمی حالات کے تناظر میں بھی دیکھا جانا ضروری ہے۔ بہرحال اب جبکہ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے حکومت کو بعض نامقبول فیصلوں کا سہارا لینا پڑا ہے تو اس کی وجوہ یا اسباب سے قوم کو آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے ازالے کی بھی کوشش کی جانی چاہیے۔ محض ماضی کی کوتاہیوں اور غلطیوں کو دہرانے سے بات نہیں بنے گی ۔ غلطیوں سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنے ہی سے بات بنے گی۔