پنجاب میں پہلی مرتبہ راکٹ لانچر کا استعمال میانوالی کے علاقے نمل میں ایک ریٹائرڈ کمانڈو احمد نواز بربری نے کیا تھا، احمد نواز نے وہاں اتنی زیادہ بربریت پھیلا رکھی تھی کہ ان دنوں اس کے نام کے ساتھ سرکاری ریکارڈ میں بھی بربری لکھا جاتا تھا۔ اس نے راکٹ لانچر مار کر مخالفین کا خاندان قتل کر دیا تھا۔ نمل کا علاقہ غنڈہ گردی کے حوالے سے بدنام تھا اور کبھی وہاں کے لوگ اسلحے کے بغیر دو قدم بھی نہیں چلتے تھے۔ آج نمل کا علاقہ علم و ادب کے حوالے سے اپنی پہچان بناتا جا رہا ہے کہ عمران خان کی قائم کردہ نمل یونیورسٹی کی بدولت کئی کلومیٹر سے علاقے میں لوگ بندوق سے قلم کی طرف سفر شروع کر چکے ہیں۔ عمران خان بھی عجیب سر پھرا آدمی ہے یہاں تو سرکاری فنڈز سے بھی کوئی عمارت بنے تو اس کا نام اپنے نام یا والدین کے نام پر رکھا جاتا ہے۔ نمل یونیورسٹی میں نہ جانے انہوں نے ایسا کیوں نہ کیا کاش وہ اپنے وسیم اکرم پلس ہی سے کچھ سیکھ لیتے، جنہوں نے عمرانی وژن کو پائمال کرتے ہوئے ڈیرہ غازی خان میں سرکاری وسائل سے تعمیر ہونے والے دل کے ہسپتال کا نام اپنے والد محترم کے نام پر سردار فتح محمد بزدار انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی رکھا۔ جناب عمران خان سے تو ان کے قریبی رفقائے کار بھی سبق نہ سیکھ سکے تاہم وہ ان کے اعتماد کا شب و روز خون کرتے رہے۔
مجھے یاد ہے کہ 2013 ء کے الیکشن میں عمران خان میانوالی کے حلقہ 95 سے عبیداللہ خان شادی خیل کے مقابلے میں الیکشن لڑ رہے تھے یہ عبیداللہ شادی خیل وہی ہیں جنہیں سابق صدر آصف علی زرداری نے کوئلے کی بہت بڑی کان ’’ لکڑوال کالری ’’گفٹ‘‘ کے عوض گفٹ کی تھی۔ عمران خان جس حلقے سے الیکشن لڑ رہے تھے ،عیسیٰ خیل کا علاقہ کمرمثانی بھی اسی میں آتا ہے اور عبیداللہ خان شادی خیل کا آبائی حلقہ بھی وہی ہے۔ عمران خان بعض یونین کونسلوں میں مصروفیات کے باعث ووٹ مانگنے نہ گئے تو شادی خیل والوں کی طرف سے بھرپور پراپیگنڈا کیا گیا کہ عمران خان کہتا ہے مجھے منشیات فروشوں کے ووٹ نہیں چاہئیں۔ یاد رہے کہ کمرمتانی کا علاقہ منشیات فروشی کے حوالے سے بہت بد نام ہوا کرتا تھا اور اب بھی وہاں صورتحال میں کچھ خاص بہتری نہیں ہے۔ پراپیگنڈا کا رزلٹ الٹ نکلا اور عبیداللہ شادی خیل اپنی ہی آبائی یونین کونسل اور وارڈ سے بڑی طرح شکست کھا گئے۔ عمران خان نے شادی خیلوں کے مقابلے میں اس علاقے سے دس گنا زائد ووٹ لئے۔ میں نے اس تبدیل شدہ صورتحال کے حوالے سے اپنے دوستوں کو فون کر کے پوچھا کہ ایسا کیوں ہوا۔ وہاں سے تو عمران خان کے جیتنے کی قطعی امید نہ تھی تو میرے ایک دوست زبیر خان نیازی جو کہ موچھ ضلع میانوالی کے رہنے والے ہیں نے حیران کن بات بتائی۔ انہوں نے میرے سوال پر باقاعدہ معلومات اکٹھی کر کے جواب دیا۔ زبیر خان نے حیران کن بات یہ بتائی کہ ان کی کمر متانی کے چند لوگوں سے بات ہوئی تھی ‘ انہوں نے مجھے بتایا کہ عمران خان اس وجہ سے جیتا کہ کمر متانی کے بعض لوگوں نے کہا کہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ہم ناجائز کاروبارکرتے ہیں اور ہمارے اردگرد منشیات فروشی بھی ہے مگر ہم نہیں چاہتے کہ ہماری اولاد اس راستے پر چلے۔ ہم نے اس لئے عمران خان کو ووٹ دئیے ہیں۔ یہ ہے اصل تبدیلی مگر اس عمران خان کے گرد 2018ء کے الیکشن میں ’’کاری گروں‘‘ کا گھیرا اس قدر تنگ ہو چکا تھا کہ ٹکٹوں کی تقسیم پر بھی عمران خان کی گرفت کافی کمزور کر دی گئی، اور یہ گرفت اتنی کمزور تھی کہ عمران خان اپنے حلقہ 95 میں بھی اپنی پسند کا پینل نہ بنا سکے اور انہوں نے 2013ء کے الیکشن میں صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر واضح اکثریت سے کامیاب ہونے والے پی ٹی آئی کے انتہائی طیب شہرت کے حامل رکن صوبائی اسمبلی ڈاکٹر صلاح الدین خان سے ٹکٹ لے کر ایک غیر معروف شخص امین اللہ نیازی کو ٹکٹ دے دیا جن کا واحد میرٹ یہ قرار پایا کہ ان کا بھائی شہید ہوا تھا۔ عمران خان اس حد تک مجبور ہو چکے تھے کہ اپنا پینل بھی نہ بنا سکے اور صلاح الدین نیازی والا صوبائی حلقہ پنجاب کا واحد حلقہ تھا جہاں کامیاب امیدوار کو بھی ٹکٹ نہ مل سکا۔
مجھے بعض معاملات میں عمران خان اور ذوالفقار علی بھٹو میں مماثلت نظرآتی ہے۔ بیرسٹر تاج محمد خان لنگاہ مرحوم برطانیہ میں وکالت کرتے تھے۔ وہیں پر ان کی ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقاتیں ہوئیں تو بھٹو نے انہیں کہا کہ تمہارے جیسا نوجوان یہاں برطانیہ میں کیا کر رہا ہے۔ پاکستان آ کر پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑو۔ اتفاق یہ ہوا کہ جس حلقے سے تاج لنگاہ کو ٹکٹ ملا ،ان کا مقابلہ میاں ممتاز دولتانہ سے ہو گیا۔ بھٹو الیکشن مہم کے دوران جس حلقے میں بھی جاتے وہ لوگوں کے دلوں کو فتح کرتے جاتے۔ تاج لنگاہ نے اس کالم نگار کو بتایا کہ میرے بار بار اصرار کے باوجودبھٹو میرے حلقے میں نہ آئے اور ملتان چلے گئے۔ الیکشن میں مجھے شکست ہوئی تو پیپلزپارٹی کو اقتدارملنے کے بعد میں نے بھٹو سے سوال کیا کہ آپ میرے حلقے میں چکر لگا لیتے تو پارٹی ایک اور نشست حاصل کر لیتی۔ بقول تاج لنگاہ بھٹو نے جواب دیا کہ مجھے اس ملک کو آئین دینا ہے، میں چاہتا تھا کہ تمام قدآور سیاستدان اسمبلی میں آ جائیں تاکہ متفقہ آئین بن سکے اور یہ قسمت کی بات تھی کہ تمہارا مقابلہ دولتانہ سے ہو گیا۔ تاج لنگاہ کے بقول بھٹو نے انہیں لاجواب کر دیا۔
1977ء کے الیکشن میں وہی بھٹو ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے پر عام آدمی سے دور ہو کرخواص میں گھر گئے۔ خواص کے انتخابی حربے بھٹو کو لے ڈوبے۔ مخلص کارکن دور ہو گیا عمران خا ن کے ساتھ بھی 2018ء کے الیکشن میں اسی طرح ہوا اور الیکٹ ایبلز جس رفتار سے آئے اس سے دوگنی رفتار سے چلے گئے بھٹو نے سبق تو سیکھ لیا تھا مگر انہیں زندگی نے مہلت نہ دی دیکھیں کپتان سبق سیکھتے ہیں یا پھر وسیم اکرم پلس جیسی کبڈی ٹیم ڈھونڈ ڈھونڈ کر کرکٹ کے میدان میں اتار دیتے ہیں۔ ویسے کپتان کی سیکھنے کی عمر تو گزر چکی ہے۔