اللہ تعالیٰ نے انسانی جسم کو مختلف قسم کی بیماریوں سے محفوظ رکھنے کیلئے ایک بہترین مدافعتی نظام مہیا کیا ہے۔ اس نظام کو ہم انسانی قوت مدافعت کے طور پہ جانتے ہیں۔ اس قوت مدافعت کا بنیادی کام یہ ہوتا ہے کہ جب بھی کوئی جراثیم بیکٹیریا ، وائرس وغیرہ اور دیگر بیماریوں کا سبب بننے والے خوردبینی جاندار انسانی جسم پر حملہ آور ہوتے ہیں تو یہ مدافعتی نظام خود بخود حرکت میں آ جاتا ہے۔ اورا نکے خلاف برسرپیکار ہوتے ہوئے ان کا خاتمہ کر دیتا ہے۔ جس کی وجہ سے انسان بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے۔ ہم عام طور پر تھوڑا بہت جو بیمار ہوتے ہیں۔ اور بغیر دواؤں کے خود بخود ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ تو یہ بھی اسی مدافعتی نظام کی بدولت عمل میں آتا ہے مگر جب اس مدافعتی نظام میں خرابی پیدا ہو جائے اور یہ اپنا کام صحیح نہ کرے یا یہ کمزور ہو جائے تو انسانی جسم پہ بیماریوں کے حملے کے نتیجے میں مختلف بیماریوں کیلئے مختلف ادویات کی ضرورت پڑتی ہے۔ قوت مدافعت کو مضبوط کرنے کیلئے بہت ساری ادویات کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔ نئی نئی بیماریوں کے دریافت ہونے پر حفظ ماتقدم کے طور پہ بیماری لگنے سے قبل ہی قوت مدافعت کو سہارا دینے کیلئے مختلف بیماریوں کیلئے انکے مطابق ویکسین لگائی جاتی ہے۔ انکی بہترین مثال ہیپا ٹائٹس اور کورونا کی ویکسین ہیں۔بعض اوقات یہی مدافعتی نظام انسان کو بیماریوں سے محفوظ رکھنے کے بجائے بذات خود بیماری پیدا کرنے کا سبب بن جاتا ہے جسے میڈیکل کی زبان میں آٹو امیون کہا جاتا ہے۔آٹو امیون کی بیماری میں مدافعتی نظام کے خلیات غلطی سے اپنے ہی جسم کے صحت مند دوسرے خلیات کو کسی بیماری کا سبب بننے والے جراثیم سمجھ کر ان پہ حملہ کرکے ان کو نقصان پہنچاتے ہیں جس کی وجہ سے انسان کو بہت شدید نقصان پہنچتا ہے۔ انسانی مدافعتی نظام کی اس خرابی کی وجہ سے جو اب تک معلوم آٹوامیون بیماریاں دریافت ہوئی ہیں انکی تعداد تقریباً چھ ہزار کے قریب ہیں۔
یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ آٹو امیون بیماریوں کی ان تمام اقسام کیلئے کوئی باقاعدہ دوائیں نہیں بنائی جا سکتی ہیں۔ دیگر بیماریوں میں تو انکے سبب بننے والے وائرس یا بیکٹیریا کو مار کر اس بیماری کو ختم کیا جاتا ہے جبکہ اس بیماری میں سبب بننے والا مدافعتی نظام اگر ختم کیا جائے تو انسا ن کی موت واقع ہو جاتی ہے اس لیے اس کا علاج بہت مہارت اور احتیاط سے کیا جاتا ہے۔ اس بیماری کے افرا ئش کے اسباب تاحال معلوم نہیں ہو سکے ہیں جو جتنی بھی وجوہات بیان کی جاتی ہیں وہ قیاس آرائیاں ہیں۔ان تمام آٹو امیون بیماریوں کی علامات مختلف ہوتی ہیںجو کہ ایک مریض سے دوسرے مریض میں بدل سکتی ہیں جبکہ ان تمام بیماریوں میں ایک قدر یہ مشترک ہے کہ سب سے پہلے اچھی قسم کی سٹیرائیڈز کے ذریعے جسم کے مختلف قسم کے مدافعتی خلیات کو دبا کے غیر فعال کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ان خلیات کی جسم کو نقصان پہنچانے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے اور جسم کو نقصان پہنچانے کا عمل کم ہوجاتا ہے۔ بعد ازاں جس قدر جسم کو نقصان پہنچ چکا ہوتا ہے۔ معالج مریض کو اپنی منفرد نوعیت کے اعتبار سے الگ الگ علاج تجویز کرتا ہے۔ جو معالج یہ کام کرتے ہیں ان کو ہڈی اور پٹھے جوڑ کہا جاتا ہے جبکہ بعض اوقات مختلف اعضاء پہ بیک وقت حملہ آور ہونے کی وجہ سے نقصان کی صورت میں مختلف معالج باہم مل کر اس بیماری کا علاج کرتے ہیں۔ ان بیماریوں کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جاسکتا ہے۔ آٹو امیون بیماریوں کی چھ ہزار سے زائد قسموں میں سے ایک قسم ویسکو لائٹس کہلاتی ہے۔ ویسکولائٹس کی بیماریوں میں اب تک معلوم تعداد تقریباً بیس ہے۔ ان تمام اقسام کی علامات تقریباً مشترک ہوتی ہیں۔ بعض اور ایک مریض سے دوسرے مریض کے لحاظ سے مختلف بھی ہوتی ہیں۔جو قدر ان میں مشترک ہے وہ یہ ہے کہ ان تمام اقسام کے مدافعتی خلیات کے جسم پہ حملہ آور ہونے کے سبب خون کی نالیوں میں سوزش پیدا ہوجاتی ہیں جس کی وجہ سے جسم کے تمام اعضاء متاثر ہوتے ہیں۔ بیماری کی تیزی کی صورت میں اعضاء مفلوج بھی ہوجاتے ہیں۔ ان بیماریوں کی تشخیص جتنی جلد ہوجائے اتنی ہی جلدی علاج ممکن ہوتا ہے۔ ضروری بات یہ ہے کہ انسان جب بھی بیمار ہو تو کسی بھی بیماری کو معمولی سمجھ کر نظر انداز نہ کرے بلکہ فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرے اور بیماری کا مکمل طریقے سے علاج کروائے اور اسکے ساتھ ساتھ پرہیز بھی کرے۔