آئی ایم ایف کی پالیسیاں اپنی ترجیحات کی بناء پرہمیشہ تنقید کاشکار رہی ہے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان پالیسیوں کا مقصد غربت کا خاتمہ ہے کہ غریب کے منہ سے آحری نوالہ بھی چھیننا ہے ۔ وقت اور آئی ایم ایف کی کارکردگی نے یہ ثابت کیا ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں غربت میں کمی کی بجائے غربت بڑھی ہے اور ان ممالک کو غربت کے منحوس چکر سے نکلنے نہیں دیاگیا حتی کہ امریکی سینیٹ نے بھی اسکی کارکردگی پر شدید تنقید کرتے ہوئے بنیادی اصلاحات پرزور دیا ہے۔ آئی ایم ایف نے پسماندہ ممالک کی معاشی اصلاحات کے ساتھ جوکھلواڑ شروع کررکھاہے بجائے اسکے کہ وہ پاکستان جیسے ممالک پر زور دیتے کہ غیر ترقیاتی اخراجات کم کریں اور دوسرے ذرائع سے بجٹ خسارہ کم کریں۔ جن سے عوام متاثر نہ ہوں لیکن آئی ایم ایف کاسارا زور ایک طرف تو غریب عوام کو غریب تر کرنا اور دوسراعوام پر ٹیکس عائد کرنا رہا ہے۔ پٹرول ، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ دوسری اشیائے ضروریہ کی قیمتوں سے منسلک ہے۔ دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی افسر شاہی کے پاس ان پسماندہ ممالک کو مزید پسماندگی کی طرف دھکیلنے کے لئے ایک ہی فارمولہ موجود ہے جو ظاہر ہے متعلقہ ملک اور قوم کے مفاد میں نہیں ہوتا۔ خسارے کا بجٹ ملکی معیشت کیلئے مہلک ہوتا ہے اور معیشت کو اندر ہی اندر سے دیمک کی طرح چاٹ جاتا ہے اس سے غیرترقیاتی اخراجات کی بجائے ترقیاتی اخراجات کم کردئیے جاتے ہیں اور ترقی کاسفر معکوس کی طرف چل پڑتا ہے۔ حالانکہ ترقیاتی اخراجات میں اضافہ قوموں کی زندگی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اسکی مثال کچھ یوں دی جاسکتی ہے کہ اگر کسی ملک میں فضائی آلودگی کی وجہ سے گلے اور سانس کی بیماریا ں پھیل رہی ہوں اورہم مرض کی روک تھام کی بجائے ڈاکٹروں کی تعداد میں اضافہ کردیں کہ مسئلے کا حل نکل آئے گا۔ دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ ہم آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن کے بغیر سانس بھی نہیں لے سکتے قرضوں کاپہاڑ اور معاشی دیوالیہ پن نے ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کردیاہے کہ معاشی پسماندگی کیسے دور ہو ۔وہ کیا گیدڑ سنگھی ہوکہ معیشت کا پہیہ گردش میں آجائے۔ اس سے قبل کبھی ہمارامقصد اور ہماری ترجیح خود انحصاری نہیں رہی۔ ہر آنیوالے حکمران نے کہاکہ ملکی حالات دگرگوں ہیں اور آئی ایم ایف کے پاس جانا ہماری مجبوری ہے ۔ستر کی دہائی میں پاکستان قرض لینے والے ممالک میں شامل ہوا اور دوہزاربائیس تک قرضوں کا وہ پہاڑبن گیا کہ جن کی شرح سود کی ادائیگی بھی وبال جان بن گئی ۔ جسکی وجہ ایک تو یہ تھی کہ ہم نے سیاسی استحکام کی طرف کوئی توجہ نہ دی ۔ ہم نے یہ سوچا ہی نہیں کہ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی حالات سدھرنے والے نہیں ۔بری گورننس اور نظام احتساب کی غیرموجودگی کے باعث معاشی خوشحالی کیلئے لیاگیاقرض غریب کوفائدہ پہنچائے بغیر بااثر لوگوں کی جیبوں میں چلاجاتا ہے ۔ دوسری توجہ طلب بات یہ کہ ہم نے کشکول توڑنا تو ایک طرف معیشت پرہمیشہ سیاست کی۔ اس نے نہ صرف سیاست کو پراگندہ کیا بلکہ معیشت کوبھی زوال کی طرف دھکیل دیا ۔ اب سوال تویہ ہے کہ موجودہ خسارے کابجٹ آئی ایم ایف کی کن شرائط کے تابع ہے اور کیا حکومت کو آئی ایم ایف سے قسط نکلوانے میں مدددیگا ۔ جبکہ اپوزیشن کے خیال کے مطابق اس بجٹ سے مہنگائی میں پینتیس فی صد اضافہ ہوگا اور بجٹ خسارہ سات ارب سے اوپر جاسکتاہے جو نئی قسط کے حصول میں مددگارثابت نہیں ہوگا۔ یہاں یہ سوال بھی ضروری ہے کہ ہم میثاق معیشت کو عملی جامہ کیوں نہ پہناسکے اور وہ کیامشکل فیصلے ہیں جو حکومت لینے جارہی ہے اور عوام پر اسکے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ ہر آنے والی حکومت پچھلی حکومت کو قرض کا ذمہ دار قراردیتی ہے اور ملکی اور معاشی استحکام کے کیلئے مزید قرض کو معاشی حالت میں تبدیلی سے منسوب کردیتی ہے۔ اعلان کیاجاتا ہے کہ معاملات میں بہتری آئیگی اس سے ایک طبقہ تو یقینا خوشحال ہوتا ہے لیکن عوام کے لئے دووقت کی روٹی کا حصول مشکل تر ہوجاتاہے۔
آئی ایم ایف اورموجودہ بجٹ
Jun 18, 2022