پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے والوں کو سلام!!!!

Jun 18, 2022

محمد اکرم چوہدری


پاکستان فیٹف کی گرے لسٹ سے نکل رہا ہے، یہ یقینی طور پر پاکستان کے لیے ایک بڑی کامیابی ہے۔ بالخصوص فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ سے نکلنے کے بعد پاکستان کی طرف سے سرمایہ کاروں اور دنیا کیلئے ایک مثبت بات ہو گی کہ وہ یہاں سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔ گرے لسٹ سے نکلنے کے بعد تجارت اور غیر ملکی سرمایہ کاری کیلئے بھی مواقع پیدا ہوں گے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری اور تجارت کھلنے سے کمزور ہوتی پاکستانی معیشت کو سہارا مل سکتا ہے۔ پاکستان پر دنیا کا اعتماد بحال ہو گا اور دنیا بھر میں پاکستان بارے متفقہ طور پر مثبت پیغام جائے گا۔ بنیادی طور پر یہ ملک کی ساکھ کا معاملہ تھا اور یہ ہر پاکستانی کیلئے خوشی کی خبر ہے۔ جن اداروں، افراد، وزارتوں نے اس سلسلے میں کردار ادا کیا ہے وہ سب مبارکباد کے مستحق ہیں۔ آج ہر کوئی اس کا کریڈٹ لینے کی کوشش کرے گا سیاسی شخصیات کو ایسے کاموں میں دل بڑا کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ معاملات سیاست اور شخصیات سے بڑھ کر ہوتے ہیں۔ اگر کوئی کام تین چار سال کی مسلسل محنت سے ہوا ہے تو اس عرصے میں کئی لوگ کام کرتے رہے ہوں گے اس حوالے سے ان سب نے اپنی ذمہ داریاں بہترین انداز میں نبھائی ہیں۔ ان سب نے قومی خدمت کی ہے۔ گوکہ ابھی پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کا اعلان نہیں ہوا آخری مرحلہ ابھی باقی ہے۔ وفد نے دورہ کرنا ہے اور اس دورے میں تمام چیزوں کا جائزہ اور تصدیق کرنی ہے۔ اسے ضابطے کی کارروائی کہا جا سکتا ہے لیکن اب تک ہونے واپی پیشرفت حوصلہ افزا ہے۔
 آج اس حوالے سے بہت بات چیت ہو رہی ہے اس لئے کچھ حقائق قارئین کے سامنے رکھنا ضروری ہیں۔ پاکستان کے فیٹف گرے لسٹ میں شامل ہونے کے بعد، اندرونی سیاسی حالات، کام کرنے کے انداز اور ممکنہ مشکلات کے پیش نظر  جی ایچ کیو میں ڈی جی ایم او کی سربراہی میں 2019 ء میں خصوصی سیل قائم کیا گیا اس وقت تک صرف پانچ نکات پر پیش رفت تھی۔ ڈی جی ایم او کی سربراہی اس سیل نے تیس سے زائد وزارتوں اور ایجنسیز کے درمیان کوارڈینیشن کی اور تمام 34 نکات پر عمل درآمد کروا کر پاکستان کو گرے لسٹ سے نکلوانے میں کردار ادا کیا ہے۔ یہ یاد رکھا جائے کہ یہ خصوصی سیل دو ہزار انیس میں قائم ہوا تھا لہذا اسے کسی کی سیاسی کامیابی یا ناکامی قرار دینے کے بجائے توجہ اس چیز پر ہونی چاہیے کہ جو کام رہ گیا ہے اسے بہترین انداز میں مکمل کیا جائے اور گرے لسٹ سے نکلنے کے بعد ملکی معیشت کو بہتر بنانے کیلئے کن خطوط پر کام کرنا ہے۔
افواجِ پاکستان کو ہر وقت تنقید کا نشانہ تو بنایا جاتا ہے لیکن جنرل قمر جاوید باجوہ کو اس کا کریڈٹ ملنا چاہیے۔ انہوں نے جن مشکل حالات میں یہ سارا کام کیا ہے یہ بہت بڑی قومی خدمت سے کم نہیں ہے۔ افواجِ پاکستان نے ہمیشہ کہا ہے کہ ان کیلئے پاکستان ہی سب سے پہلے اور پاکستان ہی سب سے اہم ہے وہ یہ ثابت بھی کرتے ہیں لیکن اپنے ہی لوگ ذاتی مفادات کیلئے قومی سلامتی کے اداروں کو نشانہ بناتے ہوئے ریاست کے مفادات کو بھول جاتے ہیں۔ ایسے افراد اور جماعتوں کو بھی اصلاح کی ضرورت ہے۔ اس ملک کا مفاد سب سے اہم ہے۔ ملکی مفادات کا تحفظ کرنے والوں کو ذاتی اختلافات کی وجہ سے نشانہ بنانے کے رویے کو کسی صورت درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ چیف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ، سابق وزیراعظم عمران خان اور موجودہ حکومت میں بھی جن لوگوں نے مختصر وقت میں جو کام کیا ہے پاکستان کا ہر شہری ان سب کا مشکور ہے۔ جن لوگوں کے سامنے یہ کام ہوا ہے، جن کے پاس فائلیں جاتی رہی ہیں، جن کی نظر سے فیٹف کے حوالے سے فائلیں گذرتی رہی ہیں وہ سب جانتے ہیں کہ حقیقت کیا ہے۔ چلیں اور نہیں تو کم از کم سیاسی افراد کو سچ ضرور بولنا چاہیے اگر وہ سچ نہیں بول سکتے تو کم از کم غلط بیانی سے بھی گریز کریں۔ موجودہ حکومت بھی سیاسی بیان بازی سے پرہیز کرے تو زیادہ بہتر ہے۔ 
اب جب یہ خبر سامنے آئی ہے کہ پاکستان نے تمام نکات پر عمل کر لیا ہے اور ہر اہم معاملے پر بہت مثبت پیشرفت ہوئی ہے۔ یہ خبر پڑھتے پڑھتے مجھے فروری دو ہزار بائیس کا ایک کالم یاد آیا آج وہ کالم ایک مرتبہ پھر آپ کے سامنے اس امید کے ساتھ رکھ رہا ہوں کہ ہمیں حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے۔ دشمنوں کا یاد رکھیں بھلے وہ اندرونی ہوں یا بیرونی، دوستوں کو ناراض مت کریں، غلطیوں سے سیکھیں اور قوم کی درست سمت رہنمائی کریں۔ فروری دو ہزار بائیس کا سائرن کچھ یوں تھا۔
"کیا فیٹف ایک ریگولیٹری ادارے کے طور پر کام کرے گا یا پھر مخصوص ریاستوں کیخلاف ترقی یافتہ ممالک کے جبر کا سیاسی آلہ کار بنے گا۔ پاکستان 2018 سے FATF کی گرے لسٹ میں ہے۔ فیٹف نے اکتوبر 2021 کو ہونے والے اپنے آخری مکمل اجلاس میں پاکستان کو اگلے جائزے تک گرے لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ کیا۔پاکستان گرے لسٹ سے نکلنے کی بہت زیادہ امید رکھتا ہے کیونکہ اس نے FATF ایکشن آئٹمز میں بڑی حد تک کامیابی حاصل  کی ہے۔ خاص طور پر ہندوستانی نژاد پروپیگنڈا مشینری پاکستان کے بارے میں غلط معلومات اور منفی پھیلانا شروع کر دیتی ہے تاکہ  آنے والے اجلاس پر مطلوبہ اثر پڑے۔ اگر ایف اے ٹی ایف پاکستان کو گرے لسٹ میں برقرار رکھنے کا فیصلہ کرتا ہے تو یہ یقینی طور پر ادارے کی ساکھ پر سوالیہ نشان ہو گا۔ پاکستان نے گرے لسٹ سے باہر آنے کیلئے نیک نیتی اور پیشہ وارانہ انداز میں متعدد اقدامات کئے ہیں، جن کی لاگت اب تک ملک کے جی ڈی پی پر تقریباً 38 بلین ڈالر ہے۔  پاکستان کی ترقی درج ذیل ہے۔ FATF دہشت گردی کی مالی معاونت میں 27 میں سے 26 آئٹمز پر مطمئن ہے۔ منی لانڈرنگ (ML) ایکشن پلان کے 7 میں سے 4 آئٹمز پر توجہ دی گئی۔ 29 نومبر 2021 کو، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے حکم جاری کیا جس میں تمام رئیل اسٹیٹ ایجنٹوں سے کہا گیا کہ وہ 1 جنوری 2022 سے پہلے AML ایکٹ 2010 کے تحت ٹیکس مشینری کے ساتھ رجسٹرڈ ہوں۔ رئیل اسٹیٹ ایجنٹس پر ایف بی آر کے حکم کے علاوہ، پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے وائٹ لسٹ میں جانے کی کوششوں کے حصے کے طور پر پارلیمنٹ کے ذریعے متعدد  قوانین منظور کئے ہیں۔  باہمی قانونی معاونت (مجرمانہ معاملہ) بل، 2020 انسداد دہشت گردی ایکٹ (ترمیمی) بل، 2020 اسلام آباد ہائی کورٹ (ترمیمی) بل، 2019، حکومت پاکستان نے FATF کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے گزشتہ سال کے دوران تقریباً تین درجن قوانین میں تبدیلی کی ہے۔امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے 27 میں سے 26 ایکشن آئٹمز کے ساتھ اپنے پہلے ایکشن پلان پر پاکستان کی نمایاں پیش رفت کا اعتراف کیا
پاکستان میں برطانوی ہائی کمشنر ڈاکٹر کرسچن ٹرنر نے ایف اے ٹی ایف کے روڈ میپ پر پاکستان کی کارکردگی کو شاندار قرار دیا۔ پاکستان میں یورپی یونین کی سفیر اندرولا کمنارا نے پاکستان کی کارکردگی کو سراہا۔ اس کے باوجود پاکستان نے FATF کے 40 میں سے 35 اہداف کو حاصل کر لیا ہے۔  اس کے باوجود پاکستان گرے لسٹ میں ہے۔ لندن دنیا کے سب سے بڑے مالیاتی مراکز میں سے ایک ہے یہ مجرموں کیلئے اپنی دولت چھپانے کیلئے ایک پرکشش جگہ بن گیا ہے۔ 26 اگست 2014 کو ڈائریکٹوریٹ جنرل آف ایکسٹرنل سیکیورٹی (DGSE) کی ایک دستاویز اور اسے "خفیہ دفاع" کے نام سے لیبل کیا گیا تھا کہ فرانسیسی ریاست اچھی طرح جانتی تھی کہ فرانسیسی سیمنٹ کی بڑی کمپنی Lafarge کے شام میں ISIL (ISIS) گروپ کے ساتھ روابط ہیں۔ پراسیکیوٹرز نے مالیاتی انٹیلی جنس یونٹ (FIU) کی طرف سے بینکوں سے لاکھوں یورو کی منی لانڈرنگ کی رپورٹوں پر الزامات پر وزارت خزانہ اور انصاف پر چھاپہ مارا ۔
ایک جرمن قانون ساز، فابیو ڈی ماسی کے مطابق جرمنی مجرموں کیلئے جنت ہے۔ اقتصادی ماہرین نے مرکزی بینک میں افغانستان کے 9 بلین ڈالر کے اثاثوں کو منجمد کرنے کے امریکی اقدام کو غیر منصفانہ اور سیاسی طور پر محرک قرار دیا ہے۔ عدم تعاون کرنے والے ممالک اور ریاستوں کی فہرست جو FATF کی طرف سے تیار کی گئی ناجائز دولت کی ممکنہ پناہ گاہوں میں اسرائیل، فلپائن، روس، پاناما، مارشل آئی لینڈ وغیرہ شامل ہیں۔ مزید یہ کہ سوئٹزرلینڈ بینکنگ صارفین کی شناخت کی حفاظت کیلئے شہرت رکھتا ہے۔  بھارت کیخلاف ثبوت پر مبنی ڈوزیئر پاکستان نے اقوام متحدہ، اسلامی تعاون تنظیم (اوآئی سی)، اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) کے ساتھ ساتھ دیگر بااثر عالمی دارالحکومتوں کو بھی پیش کیا ہے۔  اقوام متحدہ کی طرف سے نامزد دہشت گرد تنظیموں جماعت الاحرار، بلوچستان لبریشن آرمی اور تحریک طالبان پاکستان سمیت متعدد دہشت گرد تنظیموں کی ہندوستانی مالی اور مادی سرپرستی کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں۔ جولائی 2021 میں ایف اے ٹی ایف کے مکمل اجلاس کے اختتام پر ہندوستان کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے کہا کہ مودی کی قیادت والی بی جے پی حکومت نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں رہے۔ سری لنکا کے انٹیلی جنس حکام کے پاس ایسے شواہد موجود ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ 2019 میں سری لنکا کے ایسٹر بم حملوں کے مرکزی منصوبہ ساز کے ہندوستانی انٹیلی جنس اہلکاروں سے رابطے تھے۔
تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سری لنکا کیخلاف بھارتی سرزمین استعمال کی گئی ہے۔ ہندوستانی بینکوں کے ذریعے ہونے والے لین دین والے لین دین کا تعلق منی لانڈرنگ، دہشت گردی اور منشیات جیسی سرگرمیوں سے ہوسکتا ہے۔امریکی حکام اور ماہرین کے مطابق، بھارت کا جوہری دھماکہ خیز مواد چوری کا خطرہ ہے تاہم  بھارت کے ساتھ بڑھتے ہوئے تجارتی تعلقات واشنگٹن کو متعلقہ سیکورٹی رسک کو نظر انداز کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔FATF کوئی تکنیکی ٹول نہیں ہے بلکہ یہ تیسری دنیا کے ممالک کیخلاف ترقی یافتہ ممالک کے سیاسی جبر کا آلہ ہے۔  ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں پاکستان کی جگہ ریگولیٹری سے زیادہ سیاسی ہوگی۔ پاکستان نے درجنوں قوانین، ضوابط اور متعلقہ تعمیل کے اقدامات کے علاوہ ایک پارلیمانی سال کے اندر 17 قوانین منظور کرکے عالمی وعدوں پر مضبوط پیش رفت کی ہے۔ FATF کا امتیازی سلوک اور پاکستان کو مسلسل نشانہ بنانا صرف اس بات کی توثیق کرے گا کہ کچھ دشمن ممالک FATF کو پاکستان کو مذموم مقاصد کے ساتھ دبائو میں لانے کیلئے استعمال کر رہے ہیں پاکستان نے ضرورت سے زیادہ کام کیا ہے لیکن ایشیائی FATF اجلاس میں بھارت کی لابنگ کی وجہ سے اسے نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ برطانیہ، سوئٹزرلینڈ اور فرانس سمیت بہت سے مغربی ممالک کو بڑے پیمانے پر لوٹی ہوئی دولت کیلئے محفوظ پناہ گاہوں کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے، اس کے علاوہ مجرموں، مفروروں، اور دھوکہ بازوں کیلئے ریاستی حفاظتی چھتری میں چھپنے کیلئے سب سے زیادہ منافع بخش جگہیں ہیں لیکن FATF یا کسی دوسرے بین الاقوامی  فورم نے ان سے پوچھ گچھ نہیں کی ہے۔ وہ تمام لوگ جو بھارت اور جرمنی جیسے منی لانڈرنگ کے جرائم میں بدترین ہیں FATF کی وائٹ لسٹ میں شامل ہیں کیونکہ نام نہاد ترقی یافتہ دنیا انسانیت پر تجارتی فوائد کو ترجیح دیتی ہے۔ فرانس کو کم از کم دہشت گرد تنظیم داعش کی مالی معاونت کیلئے ایف اے ٹی ایف کی مانیٹرنگ لسٹ میں ڈال دیا جانا چاہیے جو اس وقت انسانیت کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ فیٹف ایک سیاسی آلہ نہیں ہے، تو پھر اس نے دہشت گردی کی مالی معاونت اور علاقائی امن و سلامتی کیلئے خطرہ بننے والی سرگرمیوں میں ہندوستانی ملوث ہونے کے ثبوت کے باوجود ہندوستان کو اپنی گرے یا بلیک لسٹ میں کیوں نہیں ڈالا؟  ریکارڈ کیلئے چند مثالیں درج ذیل ہیں۔ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اور پاکستان کیخلاف بلوچستان میں تخریبی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا اعتراف، سری لنکا میں ہونے والی دہشت گردی میں ہندوستان کی شمولیت، دو ہزار انیس کے ایسٹر بم دھماکے، پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی وائٹ لسٹ میں نہ جانے کو یقینی بنانے کیلئے اپنی سیاسی طاقت کا استعمال کرنے کا بھارت کا واضح اعتراف بھی ادارے اور اس کے فیصلوں کی ساکھ پر سوالیہ نشان ہے۔
رواں سال مارچ میں اور اس سے پہلے 2021 میں منی لانڈرنگ کا جائزہ لینے والے ایشیا پیسیفک گروپ نے پاکستان کو اپنی دوسری فالو اپ رپورٹ میں مزید نگرانی کی فہرست میں شامل کیا تھا لیکن اس کے باوجود ادارہ گاہے گاہے پاکستان کی حوصلہ افزائی بھی کرتا رہا ہے۔ادارے کی جانب سے پاکستان کو یہ باور کروایا جا چکا ہے کہ منی لانڈرنگ اور دہشتگردوں کیخلاف قانون سازی کے ذریعے ہی پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالا جا سکتا ہے۔سنہ 2021 کی رپورٹ کے مطابق ادارے نے فروری 2021 میں ہونے والے اجلاس میں پاکستان پر زور دیا تھا کہ وہ تین اہم ترین سفارشات کی تکمیل کرے جن میں دہشتگردوں کو سزا، ان معاملات کی قانونی چارہ جوئی اور مالی معاونت پر پابندیاں شامل ہیں۔ان تمام سفارشات میں ایک نکتہ رہ گیا تھا جس میں ایف اے ٹی ایف نے دہشت گردوں کیخلاف قانون سازی اور ان کو ملنے والی مالی معاونت کی تفتیش کرنے پر بھی زور دیا تھا۔اسی سلسلے میں ادارہ پاکستان سے دہشتگردوں کی مالی معاونت پر پابندی کے قانونی اطلاق کا ثبوت بھی مانگتا رہا ہے"۔

مزیدخبریں