حکیمانہ …حکیم سید محمد محمود سہارنپوری
Hakimsahanpuri@gmail.com
آجا ئو گے اک روز جو حالا ت کی زد میں
ہو جائے گا معلوم خدا ہے کہ نہیں ہے
احسان دانش کے اس خو بصورت خیال ( شعر) میں ضد ، تکبر ، انا اور گھمنڈ کے تا ج محل کو زمین بو س ہو نے کا تذکرہ مو جود ہے۔جو شخص غرور کے عارضی گھر میں خو د کو قید کر لیتا ہے وہ دیکھتے ہی دیکھتے اپنی شان وحشمت کھو دیتا ہے۔مو لانا مو دودی نے صبر اور عجز وانکساری کے ایک خصوصی مضمون میں لکھا تھا کہ جب کو ئی شخص خود کو عقل کل سمجھے وہ دن اس کے زوال کا پہلا روز ہو تا ہے۔امام علی کا فرمان ہے کہ غرور جہالت کی سب سے بڑی نشانی ہے …زرا 9اور 10 مئی کے حالا ت واقعات اور نتائج پر ایک نظر ڈالیں ،چیئرمین تحریک انصاف کی نیب کے ہا تھوں گرفتاری اور اس پر کا رکنوں کا ملک گیر( پر تشدد ) احتجاج نے جو گل کھلائے وہ پا کستانی سیاست کا غیر معمولی باب ہے۔اگلے روز دس مئی کی سہ پہر عدالت عظمی کے حکم چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی سپریم کو رٹ میں پیشی اور غیر مشروط رہا ئی نے سارا سیاسی منظر تبدیل کر دیا۔11مئی کو اسلام آباد ہائی کو رٹ میں پیشی کے بعد عمران خان شام کو فاتح بن کر لاہو ر کی طرف سے روانہ ہو ئے۔
10اپریل 2022کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب چیئرمین پی ٹی آئی سرکاری پرو ٹوکو ل میں زمان پا رک پہنچے، دس بجے کئی من پتیاں مہمان شخصیت پر نچھاور کی گئیں۔زمان پا رک میں اس سیاسی شہزادے کا پر تپاک استقبال کیا جا رہا تھا جو نیب ، حکومت اور ریاست کو شکست دے کر آرہا تھا۔یہ وہ لمحہ تھا جب خان صاحب جو ش کی بجائے ہو ش سے کام لیتے لیکن ایسا عمران خان نہ کر سکے نہ ہی محبان عمران ایسا کروا سکے ؟پھر وہی ہوا جس کا اشارہ حضرت شیخ سعد ی کی ایک حکایت میں مو جو د ہے، حضرت شیخ فرماتے ہیں کہ اگر بلی کو بہت زیادہ تنگ کیا جا ئے تو ایک وہ وقت بھی آئے گا جب بلی شیر پر چھپٹا مار دے گی۔
چیئرمین تحریک انصاف نے غرور ، انا اور ضد کے تحت پر بیٹھ کر جس قسم کی تقریرکی، جیسا شعلہ انگیز اور خو فناک خطاب کیا اور'' زریںخیالات'' کا الا ئو روشن کیا الاحفیظ الامان … بالآخر اس الائو کی تپش میں وہ خود جھلس گئے 9اور دس مئی کو گذرے 35دن ہو گئے اس سوا مہینے نے آزادکشمیر ، گلگت بلتستان اور پا کستان کا سیاسی نقشہ بدل دیا۔
چیئرمین تحریک انصاف کی اس سے بڑی بے بسی کیا ہو گی جب وہ کہتے ہیں کہ مجھے رابطہ کیلئے کارکن نہیں مل رہے۔ میںکس سے بات کروں؟اب ان کی پر یس کانفرنس اور کا رکنوں سے خطاب یو ٹیوب تک محدود ہو گیا ،خان صاحب جن نادان دوستوں کے مشوروں پر الٹی میٹم اور بلند وبانگ دعوئو ں کے چراغ چلاتے تھے وہ سارے چراغ دوستو ںکی مہر بانیوں سے بجھتے گئے کل کیا ہو گا ؟ کل کے سیاسی منظر میںکس نے جگہ بنانی ہے اس بارے میں اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں !! وفاقی بجٹ منظوری کے بعد یکم جو لا ئی کو نافذ ہو جائے گا،روسی تیل بھی پا کستان پہنچ گیا۔ آذر بائیجان سے ایل این جی کے جہاز بھی کی پا کستان کی طرف رواں دواں ہونے کو ہیں۔معیشت سنبھلنے کی باتیںہو رہی ہیں ،اب اگلا ہدف 12ویں عام انتخابات کے سوا کچھ نہیں ،خان صاحب کچھ دیر صبر کر تے ، ہو ش کر تے اور زمینی حقائق کا ادراک کر تے تو وہ جنگل میںمنگل لانے والوں میں سر فہرست ہو تے ، مگر ایسا نہ ہوسکا۔
حفیظ جا لندھری کا ضرب المثل شعرخاں صاحب کی نذر
دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گا ہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
٭استحکام پاکستان پارٹی کا '' ظہور'' … قومی اور سیاسی منظر نامے پر نئی جماعت کا اعلان ہوچکا۔ ماضی میں ایسے ہوتا رہا، اقتدار کے لئے پارٹیاں بنتی رہی ہیں۔ایسے سیاسی کھیل میں کوئی اصول کوئی قانون کہیں نظر نہیں آتا۔ناداں اقتدار کی دوڑ میں عوام کے دل و دماغ میں پیدا ہونے والی سوچ کا ادراک نہیں کر رہے۔اپنی روش بدلتے ہیں نہ اپنا مزاج بنتے ہیں۔ گویا یہ کہنے میں ہم حق بجانب ہیں کہ معاشرے کے وجود میں کرپشن ناسور بنکر سرایت کر چکی ہے۔جس کا علاج نہیں پوسٹ مارٹم کی ضرورت ہے۔ورنہ ملک کے معاشی،سیاسی حالات کچھ اچھے نہیں۔ملک کی ڈولتی کشتی کو صرف ڈائیلاگ اور از سر نو میثاق جمہوریت کی ضرورت ہے جس میں تحریک انصاف بھی شامل ہو۔ پاکستان ہماری ریڈ لائن ہے۔ جس کو ڈرا دھمکا اور نامناسب القابات کے ساتھ دبایا جائے۔ یہ بات مسلہ کو حل کرنے کی بجائے مسلہ کو اور خراب کرے گی۔ سیاست میں ہر سیاسی جماعت کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اکثریث حاصل کرے۔ یہاں پہلے ہدف کو حاصل کرنے سے پہلے ہی دما دم مست قلندر کی کوشش کی گئی۔بے وقت کی راگنی الاپی گئی۔پہلے پہلا ہدف حاصل کرنا ہوتا ہے پھر بتدریج ریاست کے اندر خامیوں اور کمزوریوں کو ٹھیک کیا جاتا ہے۔کاش سیاستدان معاملے کی نذاکت کو سمجھتے۔تو یہ نہ ہوتا جو ہو رہا ہے۔ملک کی اس حالت کا ذمہ دار کوئی ایک ادارہ نہیں ، پاور پالیٹکس کا ہر دلدادہ اور داعی ہے۔اس جمع تفریق اور ضرب تقسیم کی سیاست کے اعداد و شمار لیڈر بنانے اور گرانے کے کافی ہیں۔اس کھیل کے کرداروں کو اب عوام سمجھ گئے ہیںلیکن یہ کردار قوم کے دامن میں چھپی چنگاری کا احاطہ نہیں کر پا رہے۔ملک کو نازک ترین معاشی ،آئینی اور سیاسی بحران سے سب ملکر باہمی احترام اور اپنی اپنی حدود و قیود میں رہ کر نکال سکتے ہیں۔جس کے لئے عدم تشدد اور برداشت کا رویہ اپنانا ہوگا۔