گلزار ملک
جوٹھ دا سودا ہتھو ہتھ
سچ دا گاہک ٹاواں ٹاواں
شکلوں سارے بندے لگدے
وچوں بندا ٹاواں ٹاواں
ان اشعار میں آپ نے جو کچھ فرمایا بالکل درست فرمایا ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے انسان کا زوال اس وقت شروع ہوتا ہے جب وہ اپنے ملنے والوں اور مخلص دوستوں سے جھوٹ اور منافقت کرنا شروع کر دیتا ہے یہ جھوٹ اور منافقت انسان کو تباہ و برباد کر دیتا ہے
ایک دفعہ کچھ یوں ہوا کہ افلا طون اپنے استاد سقراط کے پاس آیا اور اس سے کہنے لگا آپ کا نوکر بازار میں کھڑے ہو کر آپ کے بارے میں ہرزہ سرائی کر رہا تھا‘ سقراط نے مسکرا کر پوچھا وہ کیا کہہ رہا تھا افلاطون نے جذباتی لہجے میں جواب دیا آپ کے بارے میں کہہ رہ تھا سقراط نے ہاتھ کے اشارے سے اسے خاموش کروایا اور کہا آپ یہ بات سنانے سے پہلے اسے تین کی کسوٹی پر رکھو اس کا تجزیہ کرو اور اس کے بعد فیصلہ کرو کیا تمہیں یہ بات مجھے بتانی چاہیے افلاطون نے عرض کیا استاد جی تین کی کسوٹی کیا ہے سقراط بولا کیا تمہیں یقین ہے تم مجھے جو بات بتانے لگے ہو یہ بات سو فیصد سچ ہے‘‘ افلاطون نے فوراً انکار میں سر ہلا دیا سقراط نے ہنس کر کہا پھر یہ بات بتانے کا تمہیں اور مجھے کیا فائدہ ہوگا افلاطون خاموشی سے سقراط کے چہرے کی طرف دیکھنے لگا سقراط نے کہا یہ پہلی کسوٹی تھی ہم اب دوسری کسوٹی کی طرف آتے ہیں۔ مجھے تم جوبات بتانے لگے ہو کیا یہ اچھی بات ہے؟افلاطون نے انکار میں سر ہلا کر جواب دیا جی نہیں یہ بری بات ہے۔ سقراط نے مسکرا کر کہا کیا تم یہ سمجھتے ہو تمہیں اپنے استاد کو بری بات بتانی چاہیے افلاطون نے انکار میں سر ہلا دیا سقراط بولا گویا یہ بات دوسری کسوٹی پر بھی پورا نہیں اترتی افلاطون خاموش رہا سقراط نے ذرا سا رک کر کہا اور آخری کسوٹی یہ بتاؤ وہ بات جو تم مجھے بتانے لگے ہو کیا یہ میرے لیے فائدہ مند ہے؟ افلاطون نے انکار میں سر ہلایا اور عرض کیا استاد جی یہ بات ہر گز ہرگز آپ کے لیے فائدہ مند نہیں سقراط نے ہنس کر کہا اگر یہ بات میرے لیے فائدہ مند نہیں تو پھر اس کے بتانے کی کیا ضرورت ہے؟ افلاطون پریشان ہو کر دائیں بائیں دیکھنے لگا سقراط نے گفتگو کے یہ تین اصول آج سے چوبیس سو سال قبل وضع کر دیے تھے‘ سقراط کے تمام شاگرد اس پر عمل کرتے تھے وہ گفتگو سے قبل بات کو تین کسوٹیوں پر پرکھتے تھے کیا یہ بات سو فیصد درست ہے کیا یہ بات اچھی ہے اور کیا یہ بات سننے والوں کے لیے مفید ہے؟ اگر وہ بات تینوں کسوٹیوں پر پوری اترتی تھی تو وہ بے دھڑک بات کر دیتے تھے اور اگر وہ کسی کسوٹی پر پوری نہ اترتی یا پھر اس میں کوئی ایک عنصر کم ہوتا تو وہ خاموش ہو جاتے تھے.
مگر آج کے تجدید دور میں انتہائی دکھ کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ دوست دوست سے اپنے مفادات کی خاطر جھوٹ اور منافقت کا سہارا لیتا ہے لیکن بہت سارے دوست ایسے بھی ہوتے ہیں جو سقراط کی اس کسوٹی پر عمل کرتے ہوئے اس انسان کی بات کو سمجھتے ہیں کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے منافقت ایک رویئے کا نام ہے اور اس رویہ کو بنی نوع انسان کے ہر دور میں انتہائی نفرت انگیز سمجھا گیا اور اب بھی سمجھا جارہا ہے لیکن وہ لوگ بھی منافقت سے نفرت کرتے ہیں جو خود نفاق یا منافقت میں مبتلا ہوتے ہیں منافقت معاشرے کے لئے زہر قاتل ہے کوئی انسان اچھا ہو تو اس کو اچھا کہا جاتا ہے کوئی برا ہو تو اسے برا لیکن دنیا میں ایسے انسانوں کی کمی نہیں جن کے رویے کا رجحان برائی کی طرف تو ہوتا ہی ہے لیکن وہ اس کا اظہار نہیں کرتے اور بظاہر دوسرا انسان ایسا محسوس کرتا ہے کہ مقابل فرد اچھے رویے کا حامل ہے یا اس میں برائیاں نہیں ہیں لیکن دراصل وہ برائیوں سے لتھڑا ہوتا ہے اور ایسا شخص معاشرے کے لئے زہر کی حیثیت رکھتا ہے. آج کل منافقت اتنی عام ہو چکی ہے کہ ہر کسی کی زبان اور عمل سے ظاہر ہوتی ہے اور کبھی کبھی تو آپ کو احساس بھی نہیں ہوتا کہ جو جملے آپ اپنے لئے سامنے والے کے منہ سے سْن رہے ہیں آیا وہ واقعی حقیقت پر مبنی ہیں یا ان کو منافقت کے شیرے میں لپیٹ کر آپ تک پہنچایا گیا ہے۔
۔ لیکن کیا کیا جائے کہ منافقت آج کے دور کی ایک اہم ضرورت بن گئی ہے۔ اس کے بغیر آپ کا دوستوں میں بھی رہنا دشوار ہو جائے گا۔ منافقت دفتری سیاست کی شکل میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ ہر کوئی آپ سے اتنے اچھے انداز میں مل رہا ہوتا ہے کہ پتا ہی نہیں چلتا کس کے دل میں کیا ہے۔ کون واقعی آپ کا ساتھی ہے اور کون بڑے ماہرانہ انداز میں آپ کی کاٹ میں لگا ہوا ہے۔ انسان کو زندگی گزارنے کے لئے معاشرتی تعلقات کی بھی ضرورت پڑتی ہے اور ان رشتوں کو کیسے نبھانا ہے یہ ہر انسان کی اپنی اپنی سوچ ہوتی ہے۔ کچھ لوگ ان رشتوں کو پورے خلوص دل سے نبھاتے ہیں اور کچھ لوگ صرف ضرورت کے تحت اور منافقت کے ساتھ۔
جھوٹ کو منافقین کی نشانی یاد کرتے ہوئے عالم دین کا کہنا تھا کہ منافق لوگوں کی خصلت یہ ہے کہ کثرت سے جھوٹ بولتے ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ آج کے مسلم گھرانوں میں بھی جھوٹ بولا جاتا ہے حتیٰ کہ چھوٹے بچے جھوٹ بولتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ والدین خود جھوٹ بولتے ہیں اور بچے ان ہی سے سیکھتے ہیں. بزرگان دین نے منافقت کو مسلمانوں کے ایمان کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا۔کسی بھی شخص کے دین کے لیے سب سے بڑا خطرہ نفاق ہے۔ بعض اوقات لوگ منافقت کے شکار ہوتے ہیں اور انہیں پتہ بھی نہیں چلتا بندہ نماز پڑھتاہے، روزہ رکھتاہے اور حج پر بھی جاتاہے مگر وہ منافقت کی سیڑھیاں چڑھ رہے ہوتے ہیں-