لاہور (نیٹ نیوز) وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب عرفان قادر نے کہا ہے کہ انصاف کے تقاضے سامنے رکھیں تو عدلیہ کے علاوہ دوسرے اداروں میں بھی خود احتسابی ہونی چاہیے۔ ماضی میں کئی ججز نے آرام سے کہہ دیا کہ ہم استعفیٰ دے دیتے ہیں۔ اس طرح جج صاحبان کو تمام مراعات بدستور ملتی رہیں۔ احتساب سے متعلق پاکستان کے آئین میں کوئی ابہام نہیں، بد عنوانی کے مرتکب پارلیمنٹیرینز کا احتساب نیب، الیکشن کمشن میں ہوتا ہے، بد عنوانی کے کئی معاملات مختلف عدالتوں میں بھی جاتے ہیں، بدعنوانی کرنے والے کو احتساب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ججز خود احتسابی کرتے ہیں تو باقی اداروں میں بھی خود احتسابی ہونی چاہیے۔ سپریم جوڈیشل کونسل میں کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی، جج ریٹائرڈ بھی ہو جائیں تب بھی ان کے خلاف کیس چل سکتا ہے۔ پروسیڈنگ ہو سکتی ہے تو پھر کوئی فرق نہیں پڑتا ریٹائرڈ ہوئے یا نہیں۔ نیب بھی سیاستدانوں اور بیورو کریٹس کا احتساب کرتا ہے۔ جج صاحبان مختلف اداروں کو کنٹرول کریں آئین اس کی اجازت نہیں دیتا۔ لاہور کے ایک جج کے بارے میں سنگین الزامات سامنے آئے ہیں، اس جج کے صرف سفری اخراجات 6 کروڑ روپے کے قریب ہیں۔ ایسے معاملات کو التوا میں ڈالنا سپریم جوڈیشل کونسل کا بھی اختیار نہیں۔ کچھ جج صاحبان کے بارے میں آڈیو لیکس بھی آئیں، آڈیو لیکس سے متعلق جوڈیشل کمشن بنایا گیا، مرضی کا بنچ بنا کر آڈیو لیکس کمشن کو بھی فارغ کیا گیا، صدر اور گورنرز کے سوا کسی کو استثنیٰ نہیں، کوشش کرتے رہیں گے کہ سب پر قانون کا اطلاق یکساں ہو۔ ادارے میں کچھ لوگ ہیں جو لگ رہا ہے سب کنٹرول کر رہے ہیں، ماضی میں بہت سے چیف جسٹس صاحبان نے اپنی مرضی کے بنچ بنائے، قانون کو بہتر بنایا گیا کہ زیادہ جج بنچ کی تشکیل میں حصہ لیں، دیکھنا ہے کہ جج صاحبان سیاسی معاملات میں نہ الجھیں، اچھے قوانین بنائے گئے تاکہ جج لوگوں کو انصاف فراہم کرسکیں۔