معزز قارئین ! حضرت غوث ا±لاعظم ، شیخ عبدا±لقادر جیلانی / گیلانی کے ایک فرزند ، میرے عزیز و محترم دوست ، سابق وفاقی سیکرٹری اطلاعات و نشریات و صحت سیّد انور محمود کی مرحومہ اہلیہ ، ا±ردو ، پنجابی، کی شاعرہ و ادیبہ، بیگم نیرّ محمود صاحبہ 20 جون 2020ئکو خ±لد آشیانی ہو گئی تھیں۔
آج 18 جون ہے ، دو دِن بعد 20 جون کو، پاکستان اور بیرون پاکستان مرحومہ کے عزیز و اقارب عقیدت و احترام سے مرحومہ کی تیسری برسی منائیں گے۔
1992ءمیں جب، سیّد انور محمود ، وزیراعظم میاں نواز شریف کے پریس سیکرٹری تھے تو میری ا±ن سے دوستی بہت ہی پختہ ہوگئی تھی اور بیگم نیرّ محمود میری بھابھی / بہن بن گئی تھیں۔ موصوفہ جب تک حیات رہیں تو وہ اپنے شوہرِ نامدار کے سماجی، صحافتی ، علمی ، ادبی و ثقافتی منصوبوں کو کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کرتی رہیں۔
صحافیوں کی بیگمات اور خواتین صحافیوں سے ،سماجی تعلقات کو خوشگوار رکھنے میں ا±نہیں کمال حاصل تھا۔ریٹائرمنٹ کے بعد 2017ءسے ماہِ رمضان کی ہر یکم تاریخ کو، سیّد انور محمود دو اڑھائی سو مہمانوں ، جن میں "Retired" اور "Serving" وفاقی وزرائے اطلاعات و نشریات ، انفارمیشن گروپ اور دوسرے شعبوں کے اعلیٰ افسران اور سینئر صحافیوں ( خواتین و حضرات) کو ” دعوتِ افطار و گفتار“ کا اہتمام کِیا گیا تو، ہر سال بیگم نیرّ محمود کا کردار بہت اہم رہا ہے لیکن، 2020ءسے ”کورونا وائرس “ کے ”عذابِ الیم “ کے بعد وہ تقریب نہیں ہو سکی۔
"Living Legend"
معزز قارئین ! سیّد انور محمود اِس مہمان نوازی کے اِس لئے متحمل تھے کہ” ا±نہوں نے ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مسائل حل کرنے کے لئے "Consulting and Advocacy" کا ایک ادارہ قائم کررکھا ہے ، جِس میں کئی ریٹائر سِول اینڈ ملٹری بیورو کریٹس خدمات انجام دے رہے ہیں۔
سیّد انور محمود کے بزرگوں نے تحریک پاکستان میں اہم کردار ادا کِیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ” وہ ”مفسرِ نظریہ پاکستان“ جنابِ مجید نظامی کو ہر دَور میں "Living Legend" کہا کرتے تھے ! “ اب بھی سیّد صاحب جنابِ مجید نظامی کی عزّت و احترام کے پروگرام بنائے رکھتے ہیں!“۔
” امام ضامن ! “
15 جنوری 1999ءکو میرے بڑے بیٹے ذوالفقار علی چوہان کی شادی تھی ، سیّد انور محمود ڈائریکٹر جنرل ریڈیو پاکستان تھے۔ دونوں میاں بیوی ہمارے ساتھ دوسرے شہر باراتی بن کر گئے۔ میری بھابھی / بہن ، بیگم نیرّ محمود نے پوچھا ”اثر چوہان بھائی! آپ کے یہاں د±لہا کے بازو پر امام ضامن باندھتے ہیں ؟“۔ مَیں نے کہا ” نہیں تو!“ وہ بولیں کہ ” مَیں تو، امام ضامن لائی ہ±وں!“۔ مَیں نے کہا ” تو، باندھ دیں “ تو ا±نہوں نے باندھ دِیا۔
”سیّد بلال کا سہرا!“
6 اگست 2009ءکوسیّد انور محمود اور بیگم نیرّ محمود کے فرزند سیّد بلال محمود کی شادی، ائیر کموڈور مسعود اختر کی بیٹی آبیر سے ہ±وئی۔ قبل ازیں بھابھی نیرّ محمود نے مجھ سے کہا:
” اثر چوہان بھائی !۔ انور محمود صاحب کی پ±ھوپھی صاحبہ ، فارسی زبان میں بلال کا سہرا لِکھ رہی ہیں۔ مَیں ا±ردو میں اور آپ ؟“۔ مَیں نے کہا کہ ” مَیں پنجابی میں عزیزم بلال کا سہرا لِکھوں گا“۔
تین دِن بعد مَیں سیّد بلال کا سہرا لِکھ کر، ا±سے فریم کرا کے اپنے بیٹے شہباز علی چوہان اور ا±س کی اہلیہ عنبرین کو ساتھ لے کر سیّد انور محمود کے گھر گیا۔
ڈرائنگ روم میں سیّد انور محمود ،بھابھی نیرّ محمود۔ واشنگٹن میں "Settled" ا±ن کی بیٹی مدیحہ اور داماد کاشف بھی تھے۔ بھابھی نیرّ محمود کی فرمائش پر مَیں نے سہرا پڑھا تو سیّد انور محمود اور بھابھی نیرّ محمود آبدیدہ ہوگئے۔ بھابھی صاحبہ نے میرے سر 5 ہزار روپے وار کرغریبوں کو صدقہ دِیا۔
معزز قارئین! میرے پانچ بیٹوں میں سے چار بیٹوں کی شادیاں ہ±وئیں لیکن، مَیں کسی کا بھی سہرا نہیں لِکھ سکا ، مجھے سیّد بلال کا سہرا لکھتے اور پڑھتے ر±وحانی خ±وشی ہ±وئی۔دو بند یوں ہیں....
مَیں منگتا، علی لجپال دا، جی!
مَیتھے سایہ، نبی دی آل دا، جی!
وَلّ آندا، نئیں ،قِیل و قال دا، جی!
سہرا لِکھاں مَیں، سیّد بلال دا، جی!
....O....
بلخی سیّداں تے، گِیلانِیاں دا!
وارث، وَلیاں ، ق±طباں، ن±ورانِیاں دا!
نیرّ ،انور محمود، دے لعل دا، جی!
سہرا لِکھاں مَیں ، سیّد بلال دا جی!
....O ....
” عید مبارک ! “
20 جون 2020ءکو بیگم نیرّ محمود خ±لد آشیانی ہو گئی تھیں اور 21 جون کو مَیں نے تعزیتی کالم بھی لکھ دِیا تھا لیکن مَیں برادرِ عزیز و محترم سیّد انور محمود کے بارے بہت پریشان تھا۔
یکم اگست 2020ءکو عید ا±لاضحی تھی۔ مَیں نے "WhatsApp"پر خط لکھا کہ ” سیّد بھائی !۔ مَیں آپ کو ” عید مبارک “ کیسے کہوں ؟“۔برادرِ محترم!۔آپ سیّد ہیں اور میرے آباﺅ اجداد ،ہندو (راجپوت ) تھے ، ہمارے بزرگ ، میری ع±مر کے نوجوانوں سے کہا کرتے تھے کہ:
” اگر کوئی بیوی اپنے میاں کی زندگی میں فوت ہو جائے تو ، ا±سے س±ہاگن (خوش قسمت) سمجھنا چاہیے!“ ص±ورت یہ ہے کہ ”میری والدہ محترمہ ، میرے والد صاحب ” تحریک پاکستان کے ( گولڈ میڈلسٹ) کارکن ،رانا فضل محمد چوہان کی زندگی میں اور میری دونوں بیویاں میری زندگی میں ، انتقال کر گئیں لیکن ، ہمارے خاندان کے سبھی لوگ ا±نہیں س±ہاگن کہتے ہیں! “۔
مَیں نے لکھا تھا کہ ” سیّد بھائی!۔ آپ مجھ سے زیادہ طاقت وَر ہیں ، اِس لئے میری آپ سے اپیل ہے کہ ” آپ اپنے بزرگوں کی یاد گار، پاکستان، اپنی اولاد اور ا±ن کی اولاد کی خوشیاں دیکھنے کے لئے مجھ سے زیادہ قوت سے زندہ رہیں ! “۔
معزز قارئین ! میری اِس اپیل پر سیّد انور محمود نے مجھ سے ” عید مبارک “ قبول کر لی تھی۔ شاید اِسی لئے وہ ، بعض امراض سے صحت یاب ہونے کے لئے مجھے د±عائیں دِیا کرتے ہیں لیکن مجھے تو آج اپنی بھابھی ، بہن بیگم نیرّ محمود کے بارے حضرت غوث ا±لاعظم ، شیخ عبدا±لقادر جیلانی کا یہ ایک مقدس شعر بیان کرنا ہے کہ ....
طبلِ قیامت بکوفت ، آں ملکِ نفخ صور!
کاتب دستور ماست ، مالک یومِ النشور!
.... O ....
یعنی:۔ ” (صور پھونکنے والے فرشتے نے طبلِ قیامت بجا دیا ہے اور ہاں یہ سچ ہے جس نے ہماری قسمت لکھی ہے وہی یوم قیامت کا مالک ہے!)“۔
٭....٭....٭