جب پاکستان کے وزیراعظم نے آدھی رات کے بعد اعلان حق کیا کہ عدالت عالیہ کے متروک منصف کو ان کے منصب پر دوبارہ مقرر کر دیا گیا ہے تو مجھے اندازہ ہوا کہ میں جانب دار ہوں۔ گذشتہ دو سالوں سے چیف جسٹس کا معاملہ ہماری سیاسیت میں پھنسا ہوا تھا۔ مگر وزیراعظم پاکستان کے اعلان نے بہت عرصہ کے بعد خوشی کے جذبے سے سرشار کیا۔ کچھ نامعلوم سا احساس تھا کہ اب قانون اور انصاف کو حاصل کرنا ممکن ہو گا۔ گذشتہ دو سالوں میں ہمارے ہاں جمہوریت اور انصاف کا بہت پرچار ہوتا رہا مگر نہ جمہوریت کے نظریہ کو عزت ملی اور رہا انصاف کا معاملہ۔ وہ تو نظر ہی نہیں آتا تھا۔ ملک میں صرف اور صرف دہشت تھی یا پھر وحشت تھی۔ دونوں کا سرا حکمرانوں کے گھروں تک جاتا ہے۔ جرم اور سزا کا فرق ہی ختم ہو چکا تھا؎
کیوں عوام الناس کے چہرے نہ ہوں دہشت زدہ
کیوں نہ ہوں دیہات ویراں شہر کیا آباد ہوں
مسکنِ امن و امان و ملک رہ سکتا نہیں
قید ہوں منصف جہاں‘ مجرم جہاں آزاد ہوں
میں معزول چیف جسٹس کو ذاتی طور پر نہیں جانتا۔ وہ بھی ہمارے ہاں کی طرح کے عام سے انسان ہیں۔ مجھے ان کا ایک انکار بھا گیا۔ جب وہ بڑے اطمینان سے سابق ملٹری صدر کے سامنے براجمان تھے اور ملٹری کے صدر پر بے چینی اور بے بسی کی کیفیت نمایاں تھی۔ اس کو تو زمانہ بھی انکار نہیں کر سکتا تھا مگر ایک ایسے شخص نے اس کا گھمنڈ اور غرور توڑا جو الزامات کی زد میں تھا۔ اس کی باوردی سرکار کے ملازمین ہتک کر رہے تھے۔ اس کی شنوائی ممکن نہ تھی۔ اس کی بچت صرف اور صرف انکار میں تھی۔ اس نے ہتک اور سردمہری برداشت کی۔ وہ ٹوٹا نہیں وہ ڈٹ گیا۔ اس نے ماضی سے منہ موڑ لیا۔ اس نے اپنا سب کچھ اوپر والے پر چھوڑ دیا۔ اس کا یہ فیصلہ عزت نفس کیلئے تھا وہ عزت نفس جس سے میرے عوام گذشتہ کئی عشروں سے محروم رہے اور جن کو اندازہ تھا کہ بس ایسے ہی زندگی گزر جائے گی۔ مگر بات بنتے دیر نہیں لگتی۔ اللہ کو اور اللہ کے بندوں کو اس کے انکار کی ادا اتنی پسند آئی کہ وہ لوگوں کی آواز بن گیا پھر اقتدار اور جبر کے سامنے ڈٹ گیا۔
اس کا مقدمہ عدالت کے سامنے پیش ہوا۔ اس نے اپنی صفائی پیش نہ کی اس کے وکیلوں نے اس کا مقدمہ لڑنے کا فیصلہ کیا۔ اعتزاز احسن ان کے نمایاں وکیل تھے۔ اعتزاز نے عوام اور انصاف کا مقدمہ خوب لڑا۔ وہ اکیلا ہی جانب منزل رواں تھا۔ اس کی اپنی جماعت نے اس کو اچھوت کا درجہ دے دیا۔ اعتزاز نے بھی ماضی پر فخر نہ کیا۔ اس کے سامنے مستقبل تھا۔ پھر حق اور سچ کا قافلہ منزل رواں ہوا تو ہراول دستے میں میڈیا اور سول سوسائٹی کے لوگ نمایاں تھے۔ سابقہ ملٹری صدر کیلئے چیف جسٹس کا وجود ناقابل برداشت تھا۔ اس کو بڑا مان تھا کہ اس کے زیر سایہ نظام میں انصاف تو ہو گا۔ مگر کسی کو نظر نہیں آئے گا۔ مگر چیف جسٹس کے وکیلوں نے اپنا مقدمہ جیت ہی لیا۔ بے چارہ ملٹری صدر حیران تھا کہ ایسا کیوں ہوا۔ اس کی ٹیم نے اس کو پہلی دفعہ دھوکہ میں رکھا۔ امریکی مشاورتی گروپ بھی حیران تھے کہ ایسا کیوں ہوا۔ چیف جسٹس نے سر جھکایا اور عدالت میں انصاف کا پرچم بلند کرنا شروع کر دیا۔ پاکستان کے عوام کو عزت ملی کہ کسی جگہ تو ان کی آواز سنی جاتی ہے۔ مگر اقتدار اور اختیار کے رکھوالے اپنی سازشوں سے باز نہیں آئے۔ ان کو کسی قیمت پر آزاد عدلیہ برداشت نہ تھی۔ ان کیلئے تخت یا تختہ والا معاملہ تھا۔ ان کو تخت عزیز تھا سو انہوں نے آزاد عدلیہ کا تختہ کر دیا۔ ہٹ دھرمی اور من مانی سے عوام کے حقوق سلب کر لئے۔ ان کے ان اقدامات نے ملٹری جابر کو کمزور کر دیا۔ اس کے پاس وقت کم تھا۔ اس نے انتخابات کا اعلان کر کے آزاد عدلیہ کا معاملہ دبانے کی کوشش کی۔ انتخابات میں حصہ لینے والوں کا اپنا اپنا منشور تھا۔ صرف اور صرف مسلم لیگ (ن) کا نعرہ آزاد عدلیہ تھا اور چیف جسٹس کو بحال کرانا تھا۔ میثاق جمہوریت میں عدلیہ کے بارے میں فکر ضرور تھی۔ مگر اس پر مفادات کی وجہ سے عمل کرنا مشکل لگ رہا تھا۔ ملک میں جمہوریت تو آ گئی مگر ہماری جمہوری سرکار کو آزاد عدلیہ منظور نہ تھی۔ جو لوگ شریف برادران کے بارے میں غلط اندازے لگا رہے تھے مگر امریکہ کو آزاد عدلیہ کا منشور پسند نہ تھا۔ شریف برادران نے عوام کے جذبے کو بھانپ لیا اور آزاد عدلیہ کیلئے سب کچھ تج کر میدان عمل میں اتر گئے پھر اللہ اور آرمی نے ان کی مدد بھی کی۔ پہلا ہدف تو حاصل ہو گیا لیکن منزل ابھی دور ہے اور اس کیلئے ایسی ہی محنت اور بھی ضروری ہے؎
یہی کوچہ ہے جس میں شہر کے جمہور رہتے ہیں
عجب جمہور ہیں‘ جمہوریت سے دور رہتے ہیں
کیوں عوام الناس کے چہرے نہ ہوں دہشت زدہ
کیوں نہ ہوں دیہات ویراں شہر کیا آباد ہوں
مسکنِ امن و امان و ملک رہ سکتا نہیں
قید ہوں منصف جہاں‘ مجرم جہاں آزاد ہوں
میں معزول چیف جسٹس کو ذاتی طور پر نہیں جانتا۔ وہ بھی ہمارے ہاں کی طرح کے عام سے انسان ہیں۔ مجھے ان کا ایک انکار بھا گیا۔ جب وہ بڑے اطمینان سے سابق ملٹری صدر کے سامنے براجمان تھے اور ملٹری کے صدر پر بے چینی اور بے بسی کی کیفیت نمایاں تھی۔ اس کو تو زمانہ بھی انکار نہیں کر سکتا تھا مگر ایک ایسے شخص نے اس کا گھمنڈ اور غرور توڑا جو الزامات کی زد میں تھا۔ اس کی باوردی سرکار کے ملازمین ہتک کر رہے تھے۔ اس کی شنوائی ممکن نہ تھی۔ اس کی بچت صرف اور صرف انکار میں تھی۔ اس نے ہتک اور سردمہری برداشت کی۔ وہ ٹوٹا نہیں وہ ڈٹ گیا۔ اس نے ماضی سے منہ موڑ لیا۔ اس نے اپنا سب کچھ اوپر والے پر چھوڑ دیا۔ اس کا یہ فیصلہ عزت نفس کیلئے تھا وہ عزت نفس جس سے میرے عوام گذشتہ کئی عشروں سے محروم رہے اور جن کو اندازہ تھا کہ بس ایسے ہی زندگی گزر جائے گی۔ مگر بات بنتے دیر نہیں لگتی۔ اللہ کو اور اللہ کے بندوں کو اس کے انکار کی ادا اتنی پسند آئی کہ وہ لوگوں کی آواز بن گیا پھر اقتدار اور جبر کے سامنے ڈٹ گیا۔
اس کا مقدمہ عدالت کے سامنے پیش ہوا۔ اس نے اپنی صفائی پیش نہ کی اس کے وکیلوں نے اس کا مقدمہ لڑنے کا فیصلہ کیا۔ اعتزاز احسن ان کے نمایاں وکیل تھے۔ اعتزاز نے عوام اور انصاف کا مقدمہ خوب لڑا۔ وہ اکیلا ہی جانب منزل رواں تھا۔ اس کی اپنی جماعت نے اس کو اچھوت کا درجہ دے دیا۔ اعتزاز نے بھی ماضی پر فخر نہ کیا۔ اس کے سامنے مستقبل تھا۔ پھر حق اور سچ کا قافلہ منزل رواں ہوا تو ہراول دستے میں میڈیا اور سول سوسائٹی کے لوگ نمایاں تھے۔ سابقہ ملٹری صدر کیلئے چیف جسٹس کا وجود ناقابل برداشت تھا۔ اس کو بڑا مان تھا کہ اس کے زیر سایہ نظام میں انصاف تو ہو گا۔ مگر کسی کو نظر نہیں آئے گا۔ مگر چیف جسٹس کے وکیلوں نے اپنا مقدمہ جیت ہی لیا۔ بے چارہ ملٹری صدر حیران تھا کہ ایسا کیوں ہوا۔ اس کی ٹیم نے اس کو پہلی دفعہ دھوکہ میں رکھا۔ امریکی مشاورتی گروپ بھی حیران تھے کہ ایسا کیوں ہوا۔ چیف جسٹس نے سر جھکایا اور عدالت میں انصاف کا پرچم بلند کرنا شروع کر دیا۔ پاکستان کے عوام کو عزت ملی کہ کسی جگہ تو ان کی آواز سنی جاتی ہے۔ مگر اقتدار اور اختیار کے رکھوالے اپنی سازشوں سے باز نہیں آئے۔ ان کو کسی قیمت پر آزاد عدلیہ برداشت نہ تھی۔ ان کیلئے تخت یا تختہ والا معاملہ تھا۔ ان کو تخت عزیز تھا سو انہوں نے آزاد عدلیہ کا تختہ کر دیا۔ ہٹ دھرمی اور من مانی سے عوام کے حقوق سلب کر لئے۔ ان کے ان اقدامات نے ملٹری جابر کو کمزور کر دیا۔ اس کے پاس وقت کم تھا۔ اس نے انتخابات کا اعلان کر کے آزاد عدلیہ کا معاملہ دبانے کی کوشش کی۔ انتخابات میں حصہ لینے والوں کا اپنا اپنا منشور تھا۔ صرف اور صرف مسلم لیگ (ن) کا نعرہ آزاد عدلیہ تھا اور چیف جسٹس کو بحال کرانا تھا۔ میثاق جمہوریت میں عدلیہ کے بارے میں فکر ضرور تھی۔ مگر اس پر مفادات کی وجہ سے عمل کرنا مشکل لگ رہا تھا۔ ملک میں جمہوریت تو آ گئی مگر ہماری جمہوری سرکار کو آزاد عدلیہ منظور نہ تھی۔ جو لوگ شریف برادران کے بارے میں غلط اندازے لگا رہے تھے مگر امریکہ کو آزاد عدلیہ کا منشور پسند نہ تھا۔ شریف برادران نے عوام کے جذبے کو بھانپ لیا اور آزاد عدلیہ کیلئے سب کچھ تج کر میدان عمل میں اتر گئے پھر اللہ اور آرمی نے ان کی مدد بھی کی۔ پہلا ہدف تو حاصل ہو گیا لیکن منزل ابھی دور ہے اور اس کیلئے ایسی ہی محنت اور بھی ضروری ہے؎
یہی کوچہ ہے جس میں شہر کے جمہور رہتے ہیں
عجب جمہور ہیں‘ جمہوریت سے دور رہتے ہیں