رنگِ گل اڑا اڑا بوئے گل لٹی لٹی … (۱)

عامرہ احسان (سابق رکن قومی اسمبلی)
صلیبی جنگ کے ڈھنڈروچی، نقارچی، توپچی بنے، دہشت گردی کے جھوٹے نام پر ہم اب لاہور کراچی میں ثمرات سمیٹ رہے ہیں۔ کیا امریکہ جو دہشت گردی کا جدِ امجد ہے اسکی 50 ریاستوں میں سے کوئی ایک بھی ان منظرناموں کا عُشرِ عشیر بھی پیش کرسکتی ہے جو ہمارے ہاں ہر روز تخلیق ہو رہے ہیں؟
اُدھر امریکہ قبائل پر ایک وقت میں پانچ ڈرون بھیج کر آبادیوں بستیوں کے خون میں لتیھڑ دیتا ہے۔ وہاں نہ میڈیا کی ٹیمیں ہجوم کرتی ہیں نہ لمحہ لمحہ کی خبر۔ ہر خبر پر نظر اور سبقت لیجانے کی مارا ماری ہوتی ہے۔ نہ ایمبولینس چیختی چلاتی المناک مناظر کے غم کی منظر کشی میں حصہ ڈالتی ہیں۔ بلکہ ابھی ایک ڈرون حملے کے زخمیوں، لاشوں کو ملبہ ہٹا کر نکالنے کا کام ٹوٹے دلوں اور خونچکاں ہاتھوں سے عوام خو د کر رہے ہوتے ہیں تو اگلا ڈرون حملہ انہیں بھی شہادتوں سے ہمکنار کردیتا ہے۔ تعداد ڈبل ہو جاتی ہے۔ مزید بچے یتیم، عورتیں بیوہ، نوجوان، بوڑھے بلا تخصیص واصل بحق ہو جاتے ہیں۔ یہاں نہ پولیس، نہ ریسکیو ٹیمیں، نہ سرکار، نہ روتی عورتیں، زخمی بچے دکھانے کا اہتمام۔ ان علاقوں میں لوگوں نے صرف پاکستان میں پیدا ہونے کا جرم کیا ہے۔ حق ان کا ڈرون حملوں اور میزائلوں کے سوا اور کوئی نہیں۔ اس علاقے میں صرف وہ ہو رہا ہے جو علامہ اقبالؒ نے انکی غیرتِ دینی کے علاج کے طور پر طنزاً فرمایا تھا… ملّا کو اسکے کوہ و دمن سے نکال دو۔
لہٰذا ملّا حضرات جہاں جہاں پیدا ہوتے، پلتے بڑھتے، کفر کے سینے پر مونگ دلتے ہیں وہاں اب میزائل، برسٹ مار کر نیا پاکستان تخلیق ہو رہا ہے (ڈرون حملوں پر مکمل ہم آہنگی ہے حکومت پاکستان، امریکہ اور عوام میں) جس میں روشن خیال اسلام، ہوگا (اگر ہوگا!) قرآن و سنت والے اسلام کا وقت لدگیا۔ ڈرون حملوں پر ہی بس نہیں۔ آئے روز قبائل میں گولیوں سے بھونی گئی لاشیں پڑی ملتی ہیں۔ دہشت گرد مارے گئے ماورائے عدل و قانون!
انگریز کو برصغیر میں قدم جمانے کیلئے اس طبقے سے نجات پانے کیلئے بڑی تکلیف اور رسوائی سے گزرنا پڑا تھا۔ علماء کو پھانسیاں دیں، کالے پانی بھیجا(اب بھی بلیک واٹر آیا تو اسی کام کیلئے تھا لیکن ہم نے خود ہی اسکا کام آسان کررکھا ہے) قید وبند، عقوبت خانوں میں علماء کو اذیتوں سے گزارا گیا۔ توپوں کے دہانے پر رکھ کر داغا گیا۔ اب یہ تمام کام عین ہماری اپنی سرکار، اسکی بندوقیں، اسکے اہلکار، اسکے خفیہ ادارے کر رہے ہیں۔ یہ کام ٹھیکے پر ہو رہا ہے۔ ٹھیکیدار مستری مزدور حکومت فراہم کرتی ہے۔ ڈالر امریکہ فراہم کرتا ہے۔ بلکہ جو کام انگریز بھی نہ کر پایا وہ بھی ہم نے کرڈالا۔ لیکن ذرا ٹھہریئے ان جرائم میں صرف حکومت اور اسکے تمام مقتدر ادارے ہی ملوث نہیں۔
پارلیمنٹ، اپوزیشن، عوام الناس بھی اپنا پورا حصہ ڈال رہے ہیں۔ کہیں زبان و عمل سے اور کہیں اپنی خاموشی، غیر جانبداری(پاکستان لٹتا ہے تو لٹ جائے ہم اس جنگ میں غیر جانبدار ہیں، کی کیفیت لئے) بے نیازی سے۔ آخر ایسا کیوں ہے کہ ایک ناقابل یقین، حیرت انگیز خبر چھپے اور اخبار کے گوشے میں چپکی بیٹھی رہے۔ اس پر کوئی ردعمل، جنبش تک نہ ہو۔ ملاحظہ فرمایئے۔ ایک قومی اخبار میں مورخہ 10 مارچ کو شائع ہونیوالی یہ خبر:پاکستانی وزارت داخلہ نے ملک بھر میں قائم امریکی اور برطانوی سفارت خانوں کو نادرا کے کمپیوٹر سمیت تمام موبائل کمپنیوں کا ڈیٹا فراہم کردیا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ نادرا اور موبائل کمپنیوں کے سسٹم کی فراہمی کے بعد ان سفارتخانوں میں تعینات غیر ملکی کسی بھی پاکستانی کے قومی شناختی کارڈ نمبر سے اسکے پورے خاندان، نام اور موبائل سے استعمال ہونیوالی تمام سموں کی معلومات سمیت انکی لوکیشن (محل وقوع) کا بھی پتہ کرسکیں گے، ہم کم از کم یہ جاننے کا حق تو رکھتے ہیں کہ ہمارے کوائف کفر کے ہاتھ اس صلیبی جنگ میں آپ نے کتنے کے بیچے۔ دام کتنے لگے؟ یا امریکہ سبھی طرف مُفتا لگا رہا ہے؟ امریکہ وزارت داخلہ کا میکہ ہوگا آپ اپنے کوائف فراہم کردیتے آپ نے کس کی اجازت سے، کس بل کس آرڈیننس کے تحت انہیں ہماری نجی زندگی میں جھانکنے کی اجازت دی؟ ہماری بہو بیٹیوں کے نام، کوائف تو آپکے ادنیٰ اہلکار جگہ جگہ ہمارے گھروں، تفتیشی اداروں میں بے دھڑک جگالی کرتے رہے۔ لیکن اب یہ سب کچھ صلیبیوں کے ہاتھ آپ نے کس کی اجازت سے بیچا؟
پارلیمنٹ کہاں ہے؟ لاکھوں لگا کرکروڑوں اربوں بنا کر، اثاثے ڈکلیئر کرتے وقت یہ بے چارے غریب غرباء ارکان پارلیمنٹ کس دن کیلئے منتخب ہوئے تھے؟ جمہوریت کا یہ ڈھونگ جو رچا رکھا ہے ہمیں کیا دے رہاہے؟ ناکے، دھماکے، بھوک ننگ، ذلت و رسوائی، راز افشانی؟ اس قوم کو کتنا عرصہ مزید الّو بنا کر اپنا الّو سیدھا کیا جائیگا؟
ہر پاکستانی کے کوائف حاصل کرکے اپنے مقاصد پورے کرنے ہم نے ان کیلئے آسان تر کردیئے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ انکی قانون شکنی پر ہر مرتبہ خود حکومتی سطح سے فرد جرم عائد ہونے سے بچا لی گئی ہے؟ کیا وجہ ہے کہ اسلام آباد میں بریگیڈئروں پر حملوں میں ملوث انٹررسک کا سکیورٹی اہلکار ظفر اقبال رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔ بعدازاں پیٹی بھائی کا کوئی تذکرہ دوبارہ نہ ہوا۔ اور دو مہینے سے زائد عرصے سے تحریکی گھرانوں کے اغوا کئے جانیوالے بچوں کو لاپتہ کر دیا گیا ہے(جن کے اٹھائے جانے کے بے شمار چشم دید گواہ موجود ہیں) اوران پر بریگیڈئروں پر حملے کی فرد جرم عائد کرنے اور کھینچ تان کر جیسے تیسے مزید حادثات میں ملوث کرنے کی سرتوڑ کوشش کی جا رہی ہے۔
اگر شواہد موجود تھے تو فوری عدالت میں کیوں نہ پیش کیا گیا۔ حافظ قرآن، پاکباز نوجوانوں پر الزامات تھوپ کر گردن زدنی قرار دیں اور اپنے آقائوں کے سارے جرم دھو ڈالیں؟ کراچی میں بے دردی سے قیمتی علماء کی جانیں لمحوں میں لے لی گئیں۔ یہ تو دہشت گردی نہیں؟ حالانکہ’’ پھرتا ہے فلک برسوں تب خاک کے پردے سے انسان نکلتا ہے‘‘ کے مصداق یہ مفتی حضرات اور علماء اوران کا کم عمر پاکباز حافظ بیٹا کس جرم میں مارے گئے؟ یہ ان ایجنڈوں کے راستوں کی چٹانیں تھیں جو اس وقت غیرملکی سفارتخانوں کے ذریعے پاکستان میں آگے بڑھائے جا رہے ہیں۔ ان چٹانوں کا پاش پاش کیا جانا ضروری تھا۔ اخبارات میں دوسری طرف چھپنے والی زنانہ تصاویر دیکھئے۔ پاکستان کو کس رنگ میں رنگے جانے کا ایجنڈا ہے؟ 10 مارچ کے ایک انگلش اخبارمیں چھپنے والی ایک تصویر اگر کیپشن کے بغیر پڑھی جائے تو امریکہ یورپ کی جانی جائیگی لیکن یہ تصویر لاہور کے ایک فائیوسٹار سکول کی جوان لڑکیاں راولپنڈی آرٹس کونسل میں پرفارم فرما رہی ہیں ‘منی سکرٹ میں ملبوس قطار میں کھڑی برہنہ ٹانگوں اور برہنہ بازئوں سمیت جسم کی نمائش کرکے شرحِ خواندگی کی شاید خدمت فرما رہی ہیں۔ تصویر میں موجود کوچ جو بانہیں اور باچھیں پھیلائے اس قوم کی بیٹیوں کو پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہے۔ اسکی شہریت کا تعین نہیں ہوسکا کس صلیبی دیس کا باشندہ ہے۔برہنگی کی تعلیم ہی دینا مقصود ہے تو اس کیلئے والدین اتنی فیسیں بھر کر تعلیمی اداروں میں کیوں بھیجیں۔ عالم حیوانات اس تعلیم کیلئے کیا کافی نہیں ہے؟ (جاری ہے)
ہم ایک تیزی سے تباہی کی طرف لپکتی ہوئی تہذیب سے لنڈے کا اخلاقی گراوٹ کا یہ سامان خرید رہے ہیں جسے استعمال کرنے کیلئے انکے ہاں بھی افراد باقی نہیں بچے۔ فطرت سے جنگ کرکے یہ قومیں اب روبہ زوال اورشکست خوردہ ہے۔ فطرت سے جنگ جیتی نہیں جاسکتی۔ عورت سے اسکی نسوانیت چھین کر اسے نیم مرد بنا دیا اسے بے وقعت کردیا۔ وہ اپنا حسن اور کشش کھو بیٹھی۔ اس لڑتی جھگڑتی مساواتی حقوق زدہ مخلوق سے دامن چھڑا کر مرد نے مرد کو شریک حیات بنا لیا۔
فطرت سے ہر بغاوت کو قانون نے بھی روا قرار دے دیا۔ دنیا بھر کی آبادیاں کم کرواتے خود اپنی آبادیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ قوم کو کچھ دینے کیلئے اب نہ وہاں مائیں ہیں (صرف حقوق رسیدہ عورت ہے) نہ بچے۔ گودوں میں صرف بلیاں ہیں یاکتے۔ ایسے میں وہ امت جسکے پاس ان خزاں رسیدہ، منزل نا آشنا اقوام کو دینے کیلئے سبھی کچھ تھا۔ خود اپنی منزل کا نشان گم کر بیٹھی۔ اپنے رہبروں کو گولیوں سے بھوننے، روشنی کا پتہ بتانے والوں کی زندگی کے چراغ گل کرنے کے درپے ہوگئی۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج ملک خداداد پاکستان ہمہ نوع آندھیوں کی زد میں ہے۔ علماء کی شہادتوں میں کفر نما قوتوں کا پیغام وہی ہے کہ اسلام کی مالا جپنی چھوڑ دو۔ اب ملک میں اخلاقی انارکی کے دروس چلیں گے آرٹس کونسلوں کے جلو میں۔ اگر اسلام چاہئے تو وہ غامدی برانڈ ہوگا۔ ایسا اسلام جس میں سبھی کچھ ہو سوائے اسلامی اقدار و روایات و نظام زندگی کے اگر تم نے یہ اسلام رد کردیا آئو تمہیں ایک اور برانڈ دے رہے ہیں۔ مولانا سعید جلالپوری کو جس جرم کی بھینٹ چڑھا دیا گیا وہ یہی تھا کہ بڑی محنت سے ایجنسیوں نے امریکہ کا پسندیدہ برانڈ سات پردوں میں چھپا کر تیار کیا تھا جس سے بے شمار علم والے بھی دھوکہ کھانے کو تھے کہ انہوں نے اس چہرے سے نقاب الٹ دیا ایک اسلامی اخبارکے مفصل مضامین کے ذریعے(9-11مارچ) زید حامد کے ہیرو کو زیرو کرنے کی پاداش میں دھمکیوں کے بعد انہیں خون میں نہلا دیا گیا۔ FIR بھی اسی حوالے سے کٹوائی گئی ہے۔ختم نبوت پر چند اور پروانے نچھاور ہوگئے۔ خالص اسلام کو ختم کرنے، امریکی برانڈکو پروان چڑھانے کی اس جنگ نے پاکستان کا بھی کچھ لوٹ لیا۔ حتیٰ کہ اب تو ہمیں کرزئی بھی منہ چڑانے لگا ہے۔ صحافیوں نے ڈاکٹر عافیہ اوربچوں کے حوالے سے جب سوال کیا تو کرزئی نے ہمیں آئینہ دکھا دیا کہ آپ ہی افراد امریکہ کے حوالے کرتے رہے ہیں۔ ملک آج اسی آگ میں جل رہا ہے۔ اس گھر کو آگ لگ گئی گھرکے چراغ سے۔ جماعتیں ملک و قوم اور اسلام کو بچانے، اسکی بقا اور سلامتی و ترویج کیلئے بنائی جاتی ہیں۔ جماعت خود مطلوب و مقصود و محبوب بن جائے تو یہ بت بن جایا کرتی ہے۔ آج سبھی اپنے اپنے بت پوج رہے ہیں۔ اسلام کو نقصان پہنچنا گوارا ہے۔ اداروں، جماعتوں کا نقصان گوارا نہیں۔ یہ اسلام سے بھی ایک سنگین مذاق ہے۔ کان لگا کر تاریخ کی پکار سنئے صحابہؓ کا انداز تخاطب میرے ماں باپ آپؐ پر قربان یارسول اللہﷺ۔ آج امریکہ کیلئے قربانیاں دیتے ہم حال سے بے حال ہوگئے۔ اسلام کی بقاء کی جنگ لڑنے والوں نے اس پکار پر اپنی جان، مال، اولاد، آبادیاں سبھی کچھ لٹوا دیا اور اب وہ سرخرو ہونے کو ہیں خواہ وہ طالبان کا افغانستان ہو یا ہمارے غیور قبائل۔ ادھر ہم امریکہ کی جنگ لڑتے اپنے زخم چاٹ رہے ہیں اب جنوبی پنجاب، کا ترانہ پڑھا جارہا ہے۔ اللہ اب اسکی خیر کرے۔ ہم کوئی نیا محاذ نہ کھول بیٹھیں! پاکستان اور اسلام لازم و ملزوم ہیں۔ دہشت گردی کے قریب سے دامن چھڑا کر پاکستان کی بقاء اور تحفظ کیلئے اسلام کی طرف لوٹنا ہوگا۔ ورنہ صوبہ در صوبہ، شہر در شہر اس امریکی عفریت کے بھینٹ چڑھ جائیں گے۔ دہشت گردی کی خونخواری کیا کم ہے کہ صوبائی عصبیت اورلسانیت بھی پر پرزے نکالیں۔
رنگِ گل اڑا اڑا بوئے گل لٹی لٹی
بلبلیں قفس میں ہیں بوم نغمہ بار ہے
کیا عجب دیار ہے
تارِ عنبکوت کے جال ہیں بچھے ہوئے
لومڑی ہے گھات میں شیر کا شکار ہے
کیا عجب دیار ہے!

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...