کاروانِ عمر رفتہ کے نشاں دیکھا کئے.......

جسٹس (ر) نذیر احمد غازی
استاد ابراہیم ذوق نے کیا خوب کہا تھا…؎
اے ذوق کسی ہمدم دیرینہ کا ملنا
بہتر ہے ملاقاتِ مسیحا و خضر سے
گزشتہ ہفتے ایک فکری تازگی کا بہت سادہ اور گہرا مطالعہ میسر آیا اور تمام زندگی کی خوبصورت یادوں نے امید کی دنیا کو آباد کر دیا۔ تب ایک نئے احساس نے بیدار کیا کہ پرانے دوستوں سے ملاقات نئے زمانے کی روشنی کا کام دیتی ہے۔ اسی لیے بڑے ادارے اپنے پرانے طلبہ کو جمع کرکے مستقبل کا سامان سفر تازہ کرتے ہیں۔ میرے ایک قدیم دوست جو ہائی سکول میں میرے ہم جماعت بھی تھے مجھے ایک طویل عرصے کے بعد ملے۔ ان کا نام پروفیسر محمد اسلم خان ہے۔ پروفیسر موصوف لوساکا یونیورسٹی زمبیا اور سائوتھ افریقہ کی یونیورسٹی میں اکنامکس ڈیپارٹمنٹ میں صدر شعبہ بھی رہے ہیں۔ انہوں نے ہمارے اہل خانہ کو کھانے پر مدعو کیا تھا اور ان کا اصرار تھا کہ اپنے بیٹوں کو ضرور ساتھ لائوں۔ میں نے کہا کہ بھائی بس ہم دوست ہی مل بیٹھیں گے تو انہوں نے بہت اسرار لہجے میں سمجھایا کہ نئی نسل کو پرانی روایات کی امانت سونپنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے نوجوان بچوں کو تجربات حیات سے برسر مجلس آگاہ کریں ہم اور ہمارے نوجوان بیٹے ایک ہی نشست میں ہم نشین ہوں گے میں نے اتفاق کیا۔
میرا منجھلا بیٹا اسامہ غازی پاکستانی میڈیا میں ایک متحرک زندگی گزار رہا ہے۔ اس نے بھی ساتھ چلنے پر بہت اصرار کیا۔ میں نے معنی خیز نظروں سے اس اصرار کی وجہ دریافت کی تو کہنے لگا ابو جی ماضی کی فردی و ملی روایات کی امانت کی سب سے بڑی ذمہ داری میڈیا والوں پر عائد ہوتی ہے اور اہل خبر و نشر کا یہ فرض ہے کہ وہ نسلوں کے مزاج کو جاننے کیلئے First Hand Knowledge براہ راست اخذ علم کا اہتمام کرے۔ مجھے خوشی ہوتی کہ اگر پختہ عمر اہلِ دانش اور نوعمر دانش جو اس معقول ارتباط (interaction) کا اہتمام کریں تو کبھی بھی نسلوں کا افراق (Genrationgap) واقع نہ ہو۔ خیر ہم پروفیسر کے دردولت پر حاضر ہوئے توہماری خوشی میں مزید انبساط کا اضافہ ہوا جب ہم نے اپنے مزید لنگوٹی دوستوں کو وہاں پر موجود پایا۔ بہت سے دوست اپنی موجودہ حیثیات کے تعارف کروانے کے فوراً بعد سکول کے گرائونڈ اور گلی کی نکڑ کی جانب لوٹ گئے۔ کچھ دہی پکوڑے کی ریڑھی کی یادوں میں گم تھے اور چند دوست زندگی کے بچھڑے ساتھیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے آنکھوں کو آستین سے پونچھ رہے تھے۔
باتیں بناتے تو یوں لگتا کہ شاید میرا من دھلوی کیساتھ بیٹھ کر کہانی کتھا جوڑتے ہونگے پھر اچانک شگوفے چھوڑتے تو محسوس ہوتا کہ جہان ِجدید کا کرنل محمد خان ہے۔ طویل القامت شاہ جی نصابی کتب کو خفیہ ادارے کا ریکارڈ سمجھتے تھے۔ اس لیے انہیں بستے سے باہر امتحان کے دنوں میں نکالتے تھے۔ استاد جی جب گھر کے کام کی پڑتال کرتے تھے تو شاہ جی بے نیازی سے آنکھیں خلا میں گھما کر دونوں ہاتھ آگے بڑھا دیتے تاکہ استاد جی بید ماری کا حسبِ معمول مظاہرہ کریں۔ ہم دوست کہتے کہ شاہ جی آپ تو (Most Intellegent) ہیں، شاہ جی جلال آمیز جملوں کی گردان کرتے ہوئے اور کہتے اوئے میں استاد جی کا احترام تو کرتا ہوں۔
مجھے آج شاہ جی کی باتیں اقوال زریں معلوم ہوتی ہیں۔ اگر علم میں کمزوری ہو تو ادب اس کمزوری کو چھپا لیتا ہے اور اگر ادب میں کمی ہو تو علم باوجود ہزار بلندیوں کے انسان کو رسوا کر دیتا ہے۔ ہمارے ایک ذہین اور لائق دوست کرنل محمود آرمی سے ریٹارئرڈ ہو کر ہوم ڈیپارٹمنٹ میں اعلیٰ عہدے پر فائز رہے اور بعد میں کینیڈا کے شہری ہو گئے۔ آج بہت ہی متانت بھرے انداز میں پرانی یادوں کو تبرکانہ لہجے میں بیان کر رہے تھے۔
ایک پرانا دوست اس گہرے تقدس پر حملہ آور ہوا اور بولا چھوڑ محمود تو ذرا عینی اور اسکے ابا جی کی وہ بات سنا وہ تجھے کیا کہا کرتے تھے۔ کرنل محمود بڑے ضبط سے مسکرایا اور کہنے لگا ہاں یار عینی تو بس بالکل ہی نوکری کی نظر ہو کر رہ گیا ہے۔ عینی ہمارے ایک دوست کا تخفیف شدہ محبوب نام تھا۔ اصل نام راحت العین ہے۔ آجکل لاہور میں نیپا کے ڈائریکٹر ہیں۔ عینی کا خاندان ایک روایتی مہذب خاندان تھا۔ انکے والد اخلاق احمد دھلوی ریڈیو پاکستان کے مشہور انائونسر تھے۔ پچھلی صدی کے وضعدار اہل ادب و سخن اخلاق احمد دھلوی کو ایک روشن معیار تسلیم کرتے تھے۔ الفاظ کی ادائیگی کا زیرو بم اور تلفظ میں صحت مندی کا شعور ان کی گفتگو کو پر کشش بناتا تھا۔
اخلاق احمد دھلوی کی مجلس ادب و سخن تک ہماری رسائی تھی۔ عینی مقابلہ کا امتحان پاس کرکے نوکری کرنے لاہور سے باہر چلا گیا انکے والد گرامی اس کمی کو اس طرح پورا کرتے کہ عینی کے دوستوں کو اپنے ہاں چائے پر شام کو بلاتے اور بچوں کی طرح سلوک کرتے۔ ہر دوست کی ترقی اور حالات کے بارے میں بڑوں کا سا احساس رکھتے۔
راقم اور پروفیسر اسلم خان کو یہ مجلسِ عاقلاں ہر روز شام کو میسر آتی تھی۔ ایک دن کہنے لگے ارے وہ محمود کہاں ہوتا ہے تو بتایا کہ آج کل فوج میں خدمات انجام دے رہا ہے۔ آنکھیں گھما کر بولے وہ کیسے فوج میں چلا گیا وہ تو بلا کا ذہین تھا پھر بولے ہاں ٹھیک ہے بالکل ٹھیک ہے سخت مشقت اور پریڈ کے بعد وہ ملک کا بہترین اثاثہ بن گیا ہوگا۔
ایک جملے میں انسانی رویوں کا مجمل ترین اظہار کر دیا۔ اخلاق احمد دھلوی ایک متحرک تربیتی ادارہ تھے۔ دھلوی صاحب اور انکی زوجہ گنگا جمنی تہذیب کے سفیر تھے۔ جب وہ بولتے تھے تو محسوس ہوتا تھا کہ آسمان سے صوتِ ثریا انسانوں کے روپ میں پھیلتی جا رہی ہے۔ عینی کی تربیت میں اسکے والدین کی روایتی ثقافت کا بہت دخل ہے۔ اسکی والدہ حد درجہ اپنے بیٹے پر مہربان تھیں۔ یہ ایک عجیب سانحہ ہے ہمارے معاشرے کے بچے جب لائق ہوتے ہیں تو انکی لیاقت سے اردگرد کے لوگ خوب فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن والدین کے حصے میں محبتوں کا بدلہ بہت ہی کم ہوتا ہے۔ ہمارے ایک دوست مقصود ہیں۔ حال ہی میں ریلوے کے ایک اعلیٰ عہدے سے ریٹائر ہوئے ہیں۔
یہ ہمارا ذہین ترین دوست اپنی صلاحیتوں کا بہترین حصہ اپنی نوکری کی نذر کر چکا ہے اور یہاں تک کہ اپنی خانگی زندگی میں وہ محبتوں کو نہ لوٹا سکا۔ بسا اوقات اس وضعداری اور ملی پاسداری میں ہم عدم توازن کی زد میں آجاتے ہیں۔ آج کے نوجوان اس حقیقت کو ضرور ذہن نشین کر لیں کہ اپنی ذاتی اور اجتماعی زندگی میں توازن کے پیمانے میں جھول نہ آنے دیں اور عام طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ لائق لوگوں کے بچے اپنے والدین کے اچھے جانشین اس لیے نہیں بن پائے کہ والدین نے نجی اور اجتماعی زندگی میں عدم اعتدال سے کام لیا ہوتا ہے اور یہ ایک قومی سانحہ ہے کہ لائق لوگوں کے تجربات اگلی نسل میں منتقل نہیں ہوتے اور نااہل لوگوں کی ایک نئی صف تیار ہوتی ہے‘ جن کا ماضی کافی دھندلا ہے۔ اسی سبب سے اداروں میں کمزور پس منظر کے لوگ براجمان ہوتے ہیں جن کی نہ آنکھیں سیر ہوتی ہیں اور نہ ہی شکم کے مطالبات کی انتہا ہوتی ہے اور اندھیری نگری کے یہ چوپٹ راجہ سب سے پہلے اپنا نسب بدلتے ہیں۔ یعنی ابتداء میں باپ بدلا اور آخر میں بیوی بدل لی۔ ایسے کم ظرف لوگوں نے افسر شاہی کو بہت ہی پسپا کر دیا ہے اور اب تو کمپارٹمنٹ یافتہ بھی مقابلے کی جرأت پر اتر آتے ہیں۔
مرے بچپن کے دوستوں میں ایک میجر حامد مسعود بھی ہیں۔ فوج میں جانے کے بعد ان کا انداز محبت اور وسیع ہوتا گیا۔ ایسا خوبصورت کردار شخص جو جنگوں میں دشمنوں کو ڈھیر کرتا ہے اور معاشرے میں اپنے ہم جیسوں کے دلوں کو زیر کرتا ہے۔ پاک فوج میں ادب نوازوں کا ایک بڑا حلقہ ہے یہ مسعود اسی حلقہ شائشتہ کا ایک رکن ہے۔ اس کا عجب قصہ ہے۔
البتہ پروفیسر اسلم بڑے وسیع ذوق اور فطین ذہن کے مالک ہیں۔ شعبہ تعلیم کے خشک مضمون سے وابستگی کے باوجود ادبی ذوق نہایت سلجھا ہوا پایا اور بتا رہے تھے کہ سائوتھ افریقہ کی علمی و ادبی محافل میں نقیبِ محفل بنایا جاتا تھا۔ اس نشست میں جسٹس (ر) خواجہ فاروق سعید، انکم ٹیکس کمشنر شاہین نیازی، محمد عارف سابق ڈپٹی میر، گوجرانوالہ سلیمان کھوکھر، مرحوم اقبال جاڑا ایڈووکیٹ احسان شیخ اور بہت سے نفیس اور پیارے دوستوں کا تذکرہ رہا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر طارق سہیل مشہور آرتھو پیڈک سرجن آجکل میوہسپتال میں نہایت ذمہ دار منصب پر فائز ہیں۔ قلعہ گوجر سنگ کا میرا یہ پڑوسی دوست جو اپنی ماضی کی ثقافت کو سینے سے یوں چمٹائے رہتا ہے جیسے سردی کے موسم میں ماں اپنے بچے کو سینے سے چپکائے رکھتی ہو۔ فری سٹائل پنجابی اور بالکل غیر فیشنی پنجابی عوامی لوازمات سمیت بولتا ہے اور یہ دھان پان دیکھنے میں کالج بوائے اپنی رائے میں بڑا پختہ ہے۔ مجھ سے کہہ رہا تھا کہ یار غازی دیکھونا اس ملک نے ہمیں اتنا کچھ دیا ہے کہ ہمارے بڑے بھی یہ گمان نہیں کر سکتے تھے کہ ہم اتنے بڑے عہدوں پر فائز ہوں گے اور ہم معاشرے کے بہت بڑے فرد کہلائیں گے۔ یہ عزت یہ رزق پاکستان کی ہی دَیا ہے۔
کچھ تو ہمیں بھی سوچنا چاہیے کہ ہمیں اپنے ہم وطنوں کیلئے سامراجی ایجنٹ کا تو کردار ادا نہیں کرنا چاہیے۔ ہمارے اعلیٰ حکام کو تو عوام کے دکھوں کا مداوا کرنا چاہیے نہ کے ان کو مفتوحہ مال غنیمت سمجھ کر اپنے پیٹ کی دوزخ بھرنا چاہیے۔ ہمارا ایک بیورو کریٹ دوست حفیظ نائجیرئن بیٹھا سہیل کی باتوں پر سر ہلا رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ دوستوں تم اپنی باتیں کیے جارہے ہو تم یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ ہماری شخصیات کی بلندی میں اگرچہ ہمارے وطن کی عطا کا بڑا دخل ہے لیکن اس عطا کی بساط پر جن بزرگوں نے رنگ بھرے ہیں اور پھول بوٹے بنائے ہیں وہ تو ہمارے والدین اور اساتذہ ہی ہیں نا۔
قارئین! ہمارے معاشرے میں اقدار اپنی جگہ چھوڑ گئی ہیں‘ اس کا سبب محض اپنے بزرگوں اور محسنین کی عظمت سے انکار ہے۔ ہمارے دوستوں کی یہ محفل ایک اخلاق اعلامیے پر اختتام پذیر ہوئی۔ اگر اپنی نسلوں اور وطن کو خوشحال و خوشگوار دیکھنا چاہتے ہو تو اپنے والدین، اساتذہ اور بزرگوں کے ادب کو رواج دو عام کرو اور نئی نسلوں تک اس اہم اخلاقی قدر کو منتقل کرنے کا اہتمام کرو۔ آج کے کالم کو صفی لکھنوی کے شعر پر ختم کرتا ہوں…؎
کل ہم آئینے میں رخ کی جھریاں دیکھا کئے
کاروان عمرِ رفتہ کے نشاں دیکھا کئے

ای پیپر دی نیشن