نہ سونا اب، سحر ہونے لگی ہے
جو تھے معصوم، سادہ بے خبر تھے
اُنہیں بھی اب خبر ہونے لگی ہے
ڈری سہمی ہوئی مخلوق تھی جو
بہادر اور نڈر ہونے لگی ہے
بحث ہوتی تھی جو چھپ کر گھروں میں
وہ ہر چوراہے پر ہونے لگی ہے
نظریاتی اساسِ مملکت پر
جوانوں کی نظر ہونے لگی ہے
بدلنا ہو گا اب نظمِ سیاست
حکومت بے اثر ہونے لگی ہے
ہیں شاخِ وقت پر نوعمر غنچے
فضا گلشن کی تر ہونے لگی ہے
گُلِ اُمید دیکھو کِھل رہا ہے
مہلک محوِ سفر ہونے لگی ہے
اَنا کی بیل جو مرجھا رہی تھی
نثارِ بام و در ہونے لگی ہے
تنِ مردہ میں بھی جاں کی جھلک ہے
دوا کچھ کارگر ہونے لگی ہے
اب آئے گا مزہ جمہوریت کا
خودی اب خُود نِگر ہونے لگی ہے
دغا کیا کر سکو گے نسلِ نو سے
کہ جو بالغ نظر ہونے لگی ہے