ہندوستانی ریٹائرڈ جسٹس مرکندے کٹجو نے ایک مضمون لکھا ہے جس کا عنوان ہے (The Truth About Pakistan)”پاکستان کے بارے سچائی “ یہ مضمون مورخہ2مارچ 2013ءکو پاکستانی انگریزی اخبار The Nationمیں شائع ہواہے۔ یہ مضمون مندرجہ ذیل خیالات کا اظہار کرتا ہے:۔
”اولاََ یہ کہ پاکستان کی آزادی انگریزوں کی پالیسی ”تقسیم اور حکمرانی یعنی divide and rule“کی وجہ سے ہوئی ہے۔ انہوں نے یہ پالیسی 1857ءکی جنگ آزادی کے بعد اپنائی تھی اور ہندوستان کو 1947ءمیں دو لخت اس لئے کیا گیا تھا کہ ہندوستان ایک طاقتور ملک نہ بن پائے۔
دوئم۔ وہ دو قومی نظریہ کو نہیں مانتے۔ بلکہ بنیادی طور پر شمال سے ہجرت کر کے آنے والے مختلف النسل لوگ (pre-dravidian)جو ایک زبان بولتے ہیں ۔ شکل و صورت ایک جیسی رکھتے ہیں وہ ایک ہی ہیں۔ گو کہ ہندوستانی لوگ مختلف عقیدوں اور مذاہب اپنائے ہوئے ہیں لیکن صدیوں سے وہ ایک دوسرے کو برداشت کرتے آئے ہیں۔ صرف 1857ءکے بعد ہندومسلم فسادات اور اختلافات نمایاں کروائے گئے تھے۔
سوئم۔ پاکستان کا وجود ایک مذہبی نظریہ حیات پر رکھا گیا ہے جو بنیادی طور پر غلط ہے۔ جدید قوموں کی ترقی کا انحصار صنعتوں کی ترقی پر منحصر ہے جس کے لئے وسیع علاقوں اور خام مال کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ صرف لا دین سیکولر معاشرے سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ وہ اپنے اپنے مذاہب پر چلنے کے خلاف نہیں ہیں لیکن حکومتی معاملات میں مذہب کا دخل نہیں ہونا چاہئے۔ یعنی حکمرانی لا دین سیکولر ہو۔
چہارم۔ وہ اب بھی پاکستان کو ہندوستان کا حصہ سمجھتے ہیں اور یہ کہ پاکستان میں متعدد خرابیاں مذہبی نظریہ حیات کی وجہ سے رو پذیر ہوئی ہیں۔ جو پاکستان کے یقینی ٹوٹنے پر منتج ہونگیں۔ اس کے بعد ہندوستان (بشمول پاکستان اور بنگلا دیش ) ایک خوشحال ، طاقتو ر، لا دینی بنیاد والا ملک بن جائے گا۔
پنجم۔ جسٹس مرکندے کٹجو جو ریٹائر ہونے کے بعد ابھی ہندوستان کی پریس کونسل کے صدر ہیں۔ متعدد مشکلات کے باوجود ہندوستان کا جغرافیہ مکمل کرنے کا عزم رکھتے ہیں کیونکہ اُن کے مطابق یہ سچائی پر مبنی ہے“
جسٹس مرکندے کٹجو کے خیالات کوئی نئی چونکا دینے والی خبر نہیں ہے۔ صدیوں سے بین المذاہب ہزاروں کتابیں لکھی جا چکی ہےں۔ لاکھوں تبصرے کئے جا چکے ہیں اور لا تعداد مباحثے منعقد ہو چکے ہیں۔ اس موضوع پر متعدد مشقیں 1935ءاور 1947ءکو دوران خصوصاََ اور اس کے بعد عموماََ ہوتی رہی ہیں ۔ ابھی اس قسم کی کاروائیاں اور مطالعے جاری ہیں۔ اسی ہفتے نظریہ پاکستان کو نسل نے سالانہ جلسے منعقد کئے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام بطور مذہب اور پاکستان کے شہری کھلا ذہن رکھتے ہیں۔ ہمارے زعماءسرسید احمد خان، قائداعظم محمد علی جناح ؒ ، علامہ محمد اقبال ؒ وغیرہ نے صرف اور صرف اپنے حقوق کو حاصل کرنے کی جدوجہد کی تھی اور ہندواکثریت نے استحصالی رویہ اپنائے رکھا جو بالآخر علیحدگی پر منتج ہوا۔ انگریزوں نے وقتاََ فوقتاََ اپنے مقاصد حاصل کرنے کیلئے ہندوﺅں اور مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈالے کی کوشش ضرور کی تھی لیکن نہ انہوں نے نعوذ بااللہ قرآن نازل کروایا اور نہ ہی اُنہو ں نے وید ایجاد کی تھی۔ بنیادی اختلافات تو تھے ہی جو حقیقت ہے۔ کیا باہمی شادیاں نہ کرنا، ایک دوسرے کے منبع سے پانی نہ پینا اکھٹے ، کھانا نہ کھانا وغیرہ وغیرہ انگریزوں نے تو رائج نہیں کیا تھا۔ کیااب 65سالوں کے بعد ہندوستان میں آباد مسلمانوں کے ساتھ ہم آہنگی موجود ہے؟ ایک ملک کے لئے رنگ و نسل یا ایک زبان ہونا بھی قوی دلیل نہیں ہے۔ دنیا کے تقریباََ دو صد ممالک پر نظر ڈالی جائے تو صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ ایک رنگ ، نسل ،زبان بلکہ تہذیب والے لوگ علیحدہ ملکوں میں بھی بستے ہیں اور اکھٹے بھی رہتے ہیں۔
البتہ جسٹس کاٹجو نے اسلامی نظریہ حیات پر مبنی ریاست کی ناکامی پر جو تبصرہ کیا ہے وہ پاکستانیوں کیلئے بہت عرصہ سے لمحہ ءفکر یہ ہے۔ ہمارے چند دانشور اس قسم کے خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں اور دوسری طرف معزز اسلامی سکالر اُن کی تصحیح کرتے رہتے ہیں لیکن یہ مسئلہ جوں کا توں موجود ہے۔ اس پر بحث و مباحثہ اور غور و فکر کی اشد ضرورت نہیں۔ہمیں پرانی باتوں کو دہرانے کی ضرورت ہے اور اپنا ذہن کھلا رکھنا چاہئے کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ 65برسوں میں پاکستان میں حکمرانی کافی ناقص رہی اور پچھلے پانچ سالوں میں توہم ایک ناکام ریاست کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔ تو سوال اُٹھتا ہے کہ حکمرانی کمزوریاں ہمارے نظریہ حیات کی وجہ سے پیدا ہو چکی ہیں یا ا س پستی کی وجہ کوئی اور ہے ؟ کیا اسلامی نظریہ ایک ریاست کو خوشحال اور طاقتور بنا سکتا ہے؟ اور کیا ایسا کرنے کیلئے پاکستان کا دستور ، ہمارے طریقہ کار، ہمارے عوام کی ترجیحات اور اُن کے خیالات درست سمت اختیار کئے ہوئے ہیں ؟ کیا ہمارے سیاسی رہنما دینی علماءاور حکومتی کارندے اسلامی نظریہ حیات پر عمل کرتے رہے ہیں یا صرف زبانی دھوکہ بازی سے منافقین کا کردارادا کرتے رہے ہیں۔ اس اہم سوال پر اب کتابی یاگفتنی سے ہٹ کر عملی اور حقیقت پر مبنی حتمی مطالعہ کی ضرورت ہے کیونکہ 65سالوں کا تجربہ صحیح حل ڈھونڈنے کیلئے کافی ہے۔