سُپرمین!

مجھے یاد ہے سب ذرا ذرا، گاﺅں کی وہ سہ پہر اور گھنی چھاﺅں مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ غالباً جون کا مہینہ تھا، باپ کے سامنے نوائے وقت اخبار پڑا تھا اور وہ اپنے پرائمری حصہ میں زیر تعلیم بیٹے کو اخبار سے املا لکھوا رہا تھا۔ یہ بات ہے پچھلی صدی کے 70 کے عشرے کے وسط کی۔ دو لفظ لکھائے گئے ”کانفرنس“ اور ”قسطنطنیہ“ اور وہ دونوں لفظ بیٹا نہ لکھ سکا، جس پر باپ نالاں ہوا۔ وہی بچہ ابھی پرائمری ہی کا طالب علم تھا، اُسی باپ نے اپنے بیٹے کو اٹھایا اور اندھیری رات میں 5 میل کا پیدل سفر کرا کر گاﺅں سے مین سڑک پر لایا، وہاں سے لاہور کیلئے بس پکڑی اور اسلامی سربراہی کانفرنس کے مناظر اپنے کندھے پر بٹھا کر دکھائے۔ اسی عشرے میں تحریک تحفظ ختم نبوت اپنے شباب پر تھی، یوں کچھ میٹنگ اور پروگراموں میں وہی بچہ دیکھتا رہتا تھا، جائزہ لیتا رہتا، کچھ باتیں سمجھ میں آتیں اور کچھ سر سے گزر جاتیں۔ اُسی دور میں ایک الیکشن ہوا، باپ پولنگ ایجنٹ تھا، اُسی ننھے بچے کو بھی تھوڑی دیر ساتھ رکھا اور دکھایا کہ یہ عمل کس کس انداز سے ہوتا ہے۔ وہ باپ نہ تو کوئی امیر کبیر آدمی تھا اور نہ بہت زیادہ تعلیم یافتہ، تاہم ایک بیدار مغز کارکن، آنکھیں اور کان کھلے رکھنے والا شہری اور دور اندیش شخص بھی تھا۔ اُس باپ نے اپنے بچے کو جہاں سید مودودی سے روشناس کرایا وہاں گوجرانوالہ کے میونسپل سٹیڈیم میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا جلسہ بھی کندھوں پر اٹھا کر سُنایا اور دکھایا۔ گاﺅں کی بیٹھک میں بیٹھے باپ کا حُقّہ تازہ کرنا بھی اُسی باپ نے سکھایا، ایک طرف بزرگوں اور دیہاتیوں میں مذہبی، سیاسی اور سماجی بحث و تمحیص چلتی ہوتی، تو دوسری جانب وہ بچہ قاعدہ کتاب کھولے کبھی لفظوں پر غور و فکر کر رہا ہوتا تو کبھی موجود لوگوں کے چہروں پر دیکھتا کہ ان کھلی کتابوں کے طلسم، جسم اور ارادے کن کن اسباق کو جنم دے رہے ہیں۔ کبھی کچھ سمجھ آ جاتی اور کبھی کچھ بھی پلے نہ پڑتا۔
وقت گزرتا گیا، نئی صدی آئی۔ آخر 8 مارچ 2013ءبروز جمعہ رات 11 بجے وہ تربیت ساز باپ خالقِ حقیقی کو جا ملا۔ نوائے وقت سے املا لکھوانے والا میاں مسعود احمد اس جہانِ فانی سے کوچ کر گیا، گاﺅں ترگڑی (گوجرانوالہ) کے شہرِ خموشاں میں سفید چادر اوڑھ کر منوں مٹی تلے سو گیا اور وہ بچہ جس کا خیال رکھتے رکھتے اور تربیت کرتے کرتے باپ تھکتا نہیں تھا، یہ وہی بچہ نوائے وقت میں راقم الحروف ہے۔
قارئین کرام! وقت تیزی سے گزر رہا ہے، بہت سے ہم میں سے بھی چلے گئے۔ بزرگ تو دور کی بات، ہم مجموعی طور پر جذباتی زیادہ ہیں اور دور اندیش کم۔ جذبات کی لہر سے یقیناً ہم نے تحریک پاکستان سے قیام پاکستان فائدے بھی بہت اٹھائے ہیں کیونکہ آٹے میں نمک کے برابر سہی لیکن ایسے لوگ ضرور ہوئے جن کی بالغ نظری کی بدولت ہم نے کامرانیاں سمیٹی ہیں۔ اب استحکام پاکستان کیلئے ہمیں جوش اور ہوش کے آمیزے سے کام لینا ہے۔ احباب جو یہ سطور پڑھ رہے ہیں، یقیناً اُن کے ذہن میں یہ آیا ہو گا کہ، راقم ایک دم باپ سے پاکستان کی جانب آ گیا ہے۔ ان قارئین محترم کی نذر یہ بات عرض کرتا چلوں کہ، تین دن جب تعزیت پر آنے والے لوگوں سے مسلسل اور ڈائریکٹ رابطہ رہا، بزرگوں، نوجوانوں، سیاستدانوں اور عام لوگوں سے اس ربط کے دوران میں نے بہت کچھ سیکھا۔ واقعی زمانہ بہترین استاد اور دنیا بہترین کتاب والے اس کلاس روم اور لیبارٹری سے میں گزرا تو معلوم ہوا کہ پہلی نسلیں مشکلات کے بحرِ بیکراں سے گھبرائے بغیر عمدہ منزل کےلئے کوشاں رہتے تھے اور آج ہم آسانیوں کی فراوانیوں میں جدتوں اور وقتوں کو بہت ضائع کر رہے ہیں۔ استحکام پاکستان کیلئے محنت اور تدبر کی جو ضرور ت ہے اس کا ادراک نہ آج کی قیادت کو ہے اور نہ ہم عوام کو۔
باپ اور ملک ہمیں بہت کچھ دیتے ہیں۔ تعلیم بھی، تربیت بھی، مال و متاع بھی، فکر بھی اور ذرائع بھی، چھت بھی آسمان بھی، زمین اور زرخیزی بھی۔ ہم ملک کو کیا دیتے ہیں؟ ہم اپنے اپنے باپ کو کیا دیتے ہیں؟ یہ بات کہنے اور سُننے میں تو عام ہے کہ، ایک باپ پوری پوری اولاد کو پالتا ہے بلکہ تربیت دیتا ہے لیکن ساری اولاد مل کر بھی ایک باپ کے حقوق ادا نہیں کر پاتی! سبھی باپ فرض کی ادائیگی میں انتہا کر دیتے ہیں۔ ہمارے باپ حضرت ابراہیمؑ اُٹھتے ہیں، تو تربیت سازی کی خاطر آگ تک میں کودنے سے نہیں رُکے۔ تربیت کیلئے بیٹے اسمٰعیلؑ کے گلے پر چُھری رکھ کر چلا دیتے ہیں، اپنی آل کو بتاتے ہیں کہ حقوق و فرائض کیا ہیں اور جذبات پر قابو رکھ کر دنیا اور آخرت کی کامیابی کے حصول کیلئے کیا کچھ کیسے کرنا ہے۔ ہمارے نبی آخرالزماں اُٹھتے ہیں اور 313 لیکر ہزاروں کے مقابلہ میں بدر کے میدان میں جلوہ افروز ہوتے ہیں اور ربّ کعبہ کو کہتے ہیں کہ، وہ جو میرے پاس تھے سبھی کے سبھی تیری رضا اور خوشنودی کیلئے لے آیا اور عملاً حاضر ہوں، اور آپ فتح مبین پاتے ہیں۔ ایک دنیا کی سب سے عظیم اُمت کے عظیم باپ نے قیامت تک کیلئے تربیت کا نمونہ پیش کر دیا۔ پرچار کا اختصار یہی ہے کہ، ہم امن چاہتے ہیں ہر ظلم کے خلاف، اگر جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی۔ پھر وہی محمد مصطفی احمد مجتبیٰ جب فتح مکہ کی کامرانی حاصل کرتے ہیں، تو قتال کی ضرورت ہی نہیں پڑتی اور کامیابی قدم چومتی ہے --- کامیابی!
اس سے قبل بات چل رہی تھی باپ اور ملک کی، اس ضمن میں عرض کر دوں کہ، میرے بدنصیب بیٹے سمجھتے ہیں کہ، وہ باپ جو تربیت سازی کر کے ہماری دنیا بنا دیتا ہے، ہمیں کھڑا کر دیتا ہے اُس کیلئے ماہانہ دو تین ہزار روپے کافی ہیں بلکہ اُس پر بہت بڑا احسان ہے۔ وہ جو ہمیں کامیابی کا ہم رکاب کرتا ہے، ہمیں کھڑا کرتا ہے، ہم اُس کے سانس کے چلاﺅ کیلئے دو تین ہزار بیوی سے ڈر کر نکال پاتے ہیں، اور اتراتے پھرتے ہیں۔ آہ! وہ جو فرض نہیں بھولتا اپنا حق فراموش کر کے ہماری کامیابیوں پر مسکراتا رہتا ہے، کمر میں خم آ جاتا ہے تو بھی مسکراتا رہتا ہے اور مسکراتے مسکراتے سو جاتا ہے۔
یہی ہم ملک کے ساتھ کرتے ہیں، ملک ہمارے لئے کیا کچھ نہیں کرتا، چھاﺅں نہیں دیتا؟ شناخت نہیں دیتا؟ ترقی نہیں دیتا؟ عزت نہیں دیتا؟ ہم کیا دیتے ہیں؟ سن 2008ءکے انتخابات کے نتیجے میں قومی اسمبلی میں پہنچنے والے تقریباً 90 ممبران اسمبلی نے فارم میں انکم ٹیکس کے خانے میں صفر لکھا....صفر! باپ اور ملک کے ساتھ ہمارا یہ سلوک ہے!....کہ صفر!
خالقِ حقیقی بڑا رحیم اور کریم ہے جو ہماری غلطیاں معاف کرتا ہے حالانکہ ہم فرائض فراموش کر چکے ہیں لیکن ربّ کعبہ محمد عربی کی اُمت ہونے کے سبب ہمارے تساہل اور غلطیوں کے باوجود ہمارے لئے رحمتوں کے دریچے کھلے رکھتا ہے۔ ہم حقوق اللہ پورے کرنے میں بھی قاصر ہیں اور نبی آخر الزماں کی تعلیمات کو بھی بھولے بیٹھے ہیں۔ نظریہ اسلام اور نظریہ پاکستان وہ نسخہ ہے جس کا استعمال سو فیصد کامیابی کی ضمانت ہے۔ پھر ہمیں قوم کے باپ قائداعظم محمد علی جناح کی ادائیگی فرائض پر بھی غور کر لینا چاہئے۔ آج کی قیادت غور کرے کہ قوم کے باپ نے فرض کو کیسے فرض جانا!....فرض!
سیانے کہتے ہیں کہ، باپ سے بڑا کوئی تربیت ساز نہیں، کبھی پیار اور کبھی سزا، یہ دونوں مل کر سدھار دیتے ہیں۔ میری ماں کے الفاظ ہُوا کرتے تھے ”باپ سورج کی طرح ہوتا ہے، اگر وہ گرمی دیتا ہے تو روشنی بھی دیتا ہے، اس کے بغیر اندھیرا ہوتا ہے“ لیکن باپ وہ تاریخ بھی ہوتی ہے جس سے استفادہ کرنے سے ناکامی نہیں ہوا کرتی، اگر سمجھیں، ہاں! ہر باپ اپنی اولاد کیلئے سپرمین ہوتا ہے --- سُپرمین!

ای پیپر دی نیشن