تیسرے میچ میں ساﺅتھ افریقہ نے پاکستان کو 34 رنز سے ہرا کر سیریز 2-1 کر دی۔ میچ کافی دلچسپ اور کلوز گیا۔ کل کے تبصرے میں تین تبدیلیوں کا ذکر کیا تھا اگر یہ تبدیلیاں کر لی جائیں تو پاکستان آج کا میچ جیت سکتا تھا، عمر گل کی جگہ وہاب ریاض اور ناصر جمشید، یونس خان کی جگہ عمران فرحت اور عمر اکمل کو کھلانے کا لکھا تھا مگر ایک تبدیلی وہاب ریاض کو عمر گل کی جگہ کھلایا گیا۔ یہ تبدیلی بھی اس لئے کارآمد نہ ہو سکی کہ وہاب کو 10 اووروں میں 93 رنز پڑے۔ کتنی عجب بات ہے وہاب ریاض نے 2 سال پہلے ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں بھارت کے خلاف 5 وکٹیں حاصل کیں مگر پھر 2 سال تک باہر بٹھا دیئے گئے اور کل تک باہر ہی بیٹھے رہے اور جب ٹیم میں آئے تو پرفارمنس دینے کیلئے زور لگاتے رہے جس سے زیادہ مار کھا گئے۔ حفیظ نے انکی باﺅلنگ پر ہاشم آملہ کا 26 رنز پر کیچ بھی چھوڑ دیا۔ اسی وجہ سے انہیں کافی مار پڑ گئی۔ پاکستان کو ٹاس جیت کر ساﺅتھ افریقہ کو کھلانے کی بجائے خود بیٹنگ کرنی چاہئے تھی اور یقینی بات ہے پاکستان اگر دوسرے وقت کھیلتے ہوئے 309 رنز بنا گیا تو پہلے کھیلتے ہوئے بھی اچھا سکور بنا کر ساﺅتھ افریقہ کو انڈر پریشر کر سکتا تھا۔ محمد عرفان کا ان فٹ ہونا بھی پاکستان کی شکست کا ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ پاکستان نے میچ میں 3 آدھے تیتر آدھے بٹیر کھلائے۔ شعیب لک کو باﺅلنگ نہ دی، آفریدی 10 اوورز نہ کرا سکے البتہ حفیظ نے 10 اوورز بھی کئے اور بیٹنگ بھی اچھی کی۔ اب بھی وقت ہے چوتھے میچ میں ناصر جمشید اور یونس خان کی جگہ عمران فرحت اور عمرل اکمل کو کھلایا جائے۔ یہ تبدیلیاں کاغذوں پر بھی اور گراﺅنڈ میں بھی عمدہ نظر آئیں گی۔ 2015ءکا ورلڈ کپ سامنے رکھتے ہوئے سلیکٹر نئے کھلاڑیوں کو ٹیم میں ایڈجسٹ کریں۔ یونس خان، مصباح الحق، شاہد آفریدی، عمر گل ورلڈ کپ 2015 تک نہیں کھیل سکتے۔ اگر کھیلیں گے تو پرفارمنس نہیں دینگے۔ ون ڈے کرکٹ بہت فٹ کھلاڑیوں کا کھیل ہے، اب یہ چلے ہوئے کارتوس مزید نہیں چل سکتے۔ شاہد آفریدی نے کافی سالوں بعد 88 رنز بنا کر اچھی اننگز کھیلی مگر یہ نہیں بھولنا چاہئے یہ ان کا 352واں ون ڈے انٹرنیشنل تھا۔ اگر وہ آج پاکستان کو جتا جاتے تو 9 سال بعد یہ انکی پاکستان کیلئے اچھی پرفارمنس ہوتی۔ مجموعی طور پر پاکستان نے اچھی پرفارمنس دی۔ لڑ کر ہارنے کا زیادہ افسوس نہیں ہوتا۔