وفاقِ پاکستان کی تشکیلِ نو لازمی ہے

Mar 18, 2014

غلام اکبر

 میں پاکستان کو ایک وفاق کے طور پر نہیں ایک قوم کے طور پر دیکھتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کو ایک ’’ وفاق ‘‘ بنانا’’دو قومی نظریہ ‘‘ کی نفی ہے۔ میرے نزدیک اٹھارہویں ترمیم ایک المیے سے کم نہیں تھی۔ اس ترمیم کے ذریعے وفاقِ پاکستان کی اکائیوں کو عملی طور پر یہ احساس اور یہ شعور عطا کردیا گیا کہ وہ چاہیں تو آنے والی تاریخ کے کسی بھی موڑ پر اپنی اپنی خود مختاری کو زیادہ موثر اور زیادہ فعال بنانے کا اعلان بھی کرسکتی ہیں۔
میری اس بات کا مطلب یہ نہ لیا جائے کہ میں ایک مرکز میں اقتدارِ کلی کو مرتکز دیکھنا چاہتا ہوں۔ کسی بھی فعال اور صحتمندمعاشرے میں اقتدار کا ’’ کُلّی‘‘ اورمرتکز ہونا اس کی ترقی پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ پاکستان کو یقینی طور پر وفاق کی ہی حیثیت میں سامنے آناچاہئے تھا مگر اس وفاق کا درجنوں اکائیوں پر مشتمل ہونا ایک لازمی ضرورت تھی جسے بدقسمتی سے نظر انداز کردیا گیا۔ ہم نے جو وفاق بنایا وہ جداگانہ شناختوں ٗ اور لسانی ونسلی تعصبات کی بنیاد پر بنایا۔ اگر یہ کہا جائے تو نادرست نہیں ہوگا کہ وفاقِ پاکستان کو موجودہ شکل دے کر ہم نہ چاہتے ہوئے بھی آزاد سندھ ٗ آزاد پنجاب ٗ آزاد پختون خوا  اور آزاد بلوچستان کے فتنوں کا بیج بو چکے ہیں۔
قائداعظم محمد علی جناحؒ  کو قدرت اگر زندگی کے چند برس اور دیتی تو مجھے یقین ہے کہ پاکستان کا وفاق ایک سو کے لگ بھگ انتظامی یونٹوں پر مشتمل ہوتا۔ دوسرے الفاظ میں یہاں ایک سو کے لگ بھگ مقامی حکومتیں ہوتیں جن کے پاس مکمل مالی و انتظامی اختیارات ہوتے۔ جہاں تک مرکز کا تعلق ہے وہاں حکومت ایک ایسے صدر کی ہوتی جسے قوم نے بلاواسطہ طور پر ’’ ایک شہری ایک ووٹ ‘‘ کی بنیاد پر منتخب کیا ہوتا ۔ یقینی طور پر ایک پارلیمنٹ بھی ہوتی جس کا کام قانون سازی اور احتساب کے علاوہ اور کچھ نہ ہوتا!
موجودہ وفاق نے پاکستان کو ایسی چار اکائیوں کا درجہ دے رکھا ہے جس میں مجھے متحدہ عرب امارات کے انداز کے امیر طاقت کے مختلف جزیروں پر حکمرانی کرتے نظر آرہے ہیں۔
اگر یہ صورتحال قائم رہی تو پاکستان کو ایک قوم کبھی نہیں بنایا جاسکے گا۔ اور حکمرانی صوبائی وڈیروں خوانین ٗ چوہدریوں اور سرداروں کے ہاتھوں میں رہے گی۔
ہمیں تھرپار کرکے موجودہ المیے کو اسی پس منظر میں دیکھنا چاہئے۔
اگر تھرپار کر ایک خود مختار انتظامی یونٹ ہوتا تو اسے اپنی بہتری اور اپنے عوام کی فلاح کے لئے کراچی کی بے فکر سیاسی قیادت اور نا اہل افسر شاہی کا محتاج نہ رہنا پڑتا۔
18ویں ترمیم کے ذریعے صوبوں میں جو امارات قائم ہوئی ہیں انہیں ملک کے دور دور تک پھیلے ہوئے علاقوں اور ان کی آبادیوں کے معاملات سے صرف اس قدر دلچسپی ہے کہ وہ سندھی ٗ بلوچی ٗپختون اور پنجابی شناخت کی بنیاد پر اپنے ووٹوں کا استعمال کرتے ہیں یا نہیں۔
میں ان میں سے کسی شناخت کی مخالفت نہیں کررہا۔ ہر نسلی اور لسانی شناخت کو اپنے تحفظ کا حق حاصل ہے لیکن کیا ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں کوئی ریاست ایسی بھی ہے جس میں صرف میکسیکن صرف اینگلوسیکسن صرف اطالوی ٗ صرف سیاہ فام یا صرف یہودی بستے ہوں ؟ اگر امریکہ کے تمام ہسپانوی نژاد اکثریت سے ایک ریاست میں آباد ہوتے ٗ یا تمام اطالوی نژاد شہریوں کو کسی ایک ریاست میں اکثریت حاصل ہوتی تو اب تک وہاں آزادی کی کوئی نہ کوئی تحریک ضرور چل چکی ہوتی۔ سیاست کی دکان چمکانے کا سب سے آسان نسخہ نسلی و لسانی تعصبات کو ہوا دینا یا نسلی و لسانی محرومیوں کی داستانیں پھیلانا ہے۔ عوام کو اپنے گھر یا علاقے کی فلاح و خوشحالی کے لئے آواز ضرور بلند کرنی چاہئے مگر ان کی علاقائی      حدبندیاں نسلی و لسانی بنیادوں پر نہیں انتظامی بنیادوں پر ہونی چاہئیں۔ بابائے قوم کے ذہن میں پاکستان کے اندر بھی برطانیہ جیسا ’’ کائونٹی سسٹم‘‘ نافذ کرنے کا تصور تھا۔ کیا کسی نے سرے ٗ کینٹ ٗ یارک شائر ٗ مڈل سیکس گلیما رگن وغیرہ کے حوالے سے برطانیہ کے کسی باشندے کو شناخت کیا ہے۔ ہم ہر انگریز کو انگریز ہی کہتے ہیں۔ اگر وہاں شناخت کا کوئی بحران ہے تو انگلینڈ آئرلینڈ اور سکاٹ لینڈ کے حوالے سے ہے۔
اگر ہم نے پاکستان اور پاکستانیت کو ایک غیر فانی شناخت دینی ہے تو ہمیں وفاق پاکستان کو صوبوں کی بجائے انتظامی یونٹوں پر مشتمل کرنا ہوگا۔ اگر ملک کی ہر ڈویژن کو ایک صوبے کا درجہ دے دیا جائے اور اس کی اپنی حکومت ہو تو سندھی پنجابی بلوچی اور پختون شناختیں ختم نہیں ہوں گی ٗ ایک ایسے وفاق میں ضم ہوجائیں گی جو خود ایک عظیم اکائی ہوگا۔
آئین یقینا ایک مقدس دستاویز ہونی چاہئے مگر پاکستان میں جتنے بھی آئین نافذ کئے گئے ہیں وہ حکمران طبقوں نے اپنے اپنے مفادات کے لئے بنائے ہیں اور کسی ایک آئین کو بھی ریفرنڈم کے امتحان سے نہیں گزارا گیا۔
اور موجودہ آئین تو اس لئے بھی ’’ تقدس‘‘ کے تقاضوں پر پورا نہیں اتر سکتا کہ صرف آرٹیکل 6ہی ایسی شق نہیں جس کا احترام محب وطن کہلانے کے لئے لازم ہے ٗ 30سے لے کر 40تک تمام شقیں بھی اس امر کی متقاضی ہیں کہ ان پر پوری دیانت داری سے عمل کیا جائے۔ ان میں شق 38ایسی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ہر شہری کو غذا پانی صحت اور تعلیم کی سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بنانا ریاست کی اٹل ذمہ داری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر آرٹیکل6کی خلاف ورزی کرنے پر جنرل پرویز مشرف کو غدار قرار دیا جاسکتا ہے تو غداری کا الزام سید قائم علی شاہ اور ان کے رفقاء اور اہلکاروں پر بھی لگنا چاہئے۔یہ بات میں نے برسبیل تذکرہ لکھی ہے۔ اصل مقصد میرا اس بات پر زور دینا ہے کہ و فاقِ پاکستان کی تشکیل نئی بنیادوں پر ہونی چاہئے او ر اس کے لئے آئین بھی نیا بننا چاہئے ۔ حقیقی آئین پاکستان کا وہی ہوگا جو ریفرنڈم کے ذریعے عوام کی اکثریت کی منظوری کا مرحلہ کامیابی سے طے کرے۔

مزیدخبریں