اسلام آباد (محمد نواز رضا‘ وقائع نگار خصوصی) باخبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ حکومت اور طالبان کے درمیان ’’بداعتمادی‘‘ کے ماحول کو ختم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ حکومت کی کوشش ہے کہ طالبان شوریٰ فاٹا کے قریب بندوبستی علاقہ میں اس کے تجویزکردہ مقام پر حکومتی مذاکراتی کمیٹی سے مذاکرات کرے ۔ سکیورٹی حکام طالبان کو ’’فری زون‘‘ بنا کر ریلے کے لئے تیار نہیں۔ فوج جنوبی وزیرستان میں محسود قبیلے کے علاقے کو خالی نہیں کرے گی۔وفاقی وزارت داخلہ کی طرف سے طالبان شوریٰ کو مکمل سکیورٹی فراہم کرنے کی ضمانت فراہم کرنے کی ضمانت دینے کی پیشکش کی گئی ہے۔ جبکہ طالبان کی مذاکراتی کمیٹی حکومتی کمیٹی کے ارکان کی بحفاظت واپسی کی ضمانت دینے پر زور دے رہی ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان اور طالبان مذاکراتی کمیٹی کے درمیان طے پایا گیا ہے کہ مذاکرات کے عمل کو خفیہ رکھا جائے گا۔ اسی طرح مذاکرات کے مقام اور تاریخ کو بھی افشا نہیں کیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق وفاقی وزارت کو طالبان کی طرف سے فراہم کی گئی طالبان قیدیوں جن کا پرتشدد واردات سے کوئی تعلق نہیں‘ فہرست فراہم کر دی ہے۔ وفاقی وزارت داخلہ کے ذرائع نے اس نوعیت کی فہرست کے وصول ہونے کی تصدیق کر دی ہے۔ یہ فرست تصدیق کے لئے سکیورٹی حکام کو بھجوا دی گئی ہے‘ فوج پہلے ہی طالبان کے بچوں او رخواتین کو اپنی تحویل میں نہ ہونے کا اعلان کر چکی ہے۔ ذرائع کے مطابق حکومت اورطالبان میں مذاکرات کے عمل میں سست روی میں مطالبات کی بجائے ’’طالبان کی نقل و حرکت کی آزادی‘‘ کا مطالبہ ہے جسے سکیورٹی حکام کی طرف سے پذیرائی نہیں مل پا رہی۔ طالبان کی طرف سے فراہم کی گئی 300 قیدیوں کی فہرست میں غیرعسکری قیدیوں کی نشاندہی نہیں کی جا سکی۔ طالبان اس بات پر بھی رضامند ہیں کہ فوج دو تحصیلوں کو ’’لدہ اور پکھل‘‘ کو خالی کر دے لیکن سکیورٹی حکام کسی بھی ’’حربی پوزیشن‘‘ سے دستبردار ہونے کے لئے تیار نہیں۔