الطاف کے خلاف مقدمہ میں شامل دفعات ناقابل ضمانت، عمر قید ہو سکتی ہے: قانونی ماہرین

Mar 18, 2015

لاہور (ایف ایچ شہزاد سے) ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے خلاف درج مقدمے میں رینجرز افسروں کو سرعام جان سے مارنے کی دھمکیوں سے متعلق شامل کی گئی ہیں۔ دونوں دفعات ناقابل ضمانت ہیں۔ تعزیرات پاکستان کے سیکشن 506 بی میں 3 سال اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کے سیکشن 7 میں سزائے عمرقید ہوسکتی ہے۔ مذکورہ ایکٹ کے سیکشن 19 کے مطابق پولیس مقدمے کی تفتیش مکمل کرکے 7 روز میں چالان پیش کرنے کی پابند ہے جبکہ حکومت کی طرف سے ملزم کو ملک میں لاکر فاضل عدالت کے روبرو پیش نہ کیا جاسکا تو عدالت غیر موجودگی میں بھی سزا سنانے کا اختیاررکھتی ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق تعزیرات پاکستان کے سیکشن 506 پارٹ ٹو اس وقت اپلائی ہوتا ہے جب کسی کو جان سے مارنے کی دھمکی دی جائے۔ مذکورہ سیکشن کے تحت ایف آئی آر درج کرنے کیلئے متعلقہ ایس پی کی منظوری لازمی ہے۔ ایف آئی آر میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے سیکشن 7 سے جرم کی نوعیت مزید سنگین ہوجاتی ہے۔ اس مقدمے میں اب سمری پروسیڈنگ ہوں گی جس کا مطلب یہ ہوگا کہ فریقین عام مقدمات کی طرف سماعت میں التوا حاصل نہیں کرسکیں گے۔ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے سیکشن 7 کے شامل ہونے سے ٹرائل کورٹ جرم ثابت ہونے کی صورت میں زیادہ سے زیادہ سزا سنائیگی۔ مقدمے میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کو ان کے ایک انٹرویو کو بنیاد بناکر نامزد کیا گیا ہے۔ عدالتی احکامات پر حکومت برطانیہ سے الطاف حسین کی حوالگی کا مطالبہ کرسکتی ہے۔ اگرملزموں کی حوالگی کا معاہدہ ہو تو ایک حکومت دوسری حکومت کو ملزم دینے کی پابند ہے۔ ورنہ وہ اپنے قوانین کے مطابق فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق مقدمے کی اصل پوزیشن کا دارومدار پولیس کی طرف سے ٹرائل کورٹ میں داخل کی جانیوالی ضابطہ فوجداری کے سیکشن 173 کی رپورٹ پر ہوگا۔

مزیدخبریں