بغیر تحقیقات جبری رخصت پر نہیں بھیجا جا سکتا، ہائیکورٹ نے سابق چیئرمین اوگرا کو بحال کر دیا

Mar 18, 2015

اسلام آباد (آن لائن) اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئل گیس ریگولیٹری اتھارٹی ( اوگرا ) کے سابق چیئرمین سعید احمد خان کو پٹرولیم بحران کے دوران حکومت کی جانب سے تین ماہ کی جبری رخصت پر بھیجنے کے نوٹیفیکیشن کو کالعدم قرار دیتے ہوئے سع سعید احمد خان کی بطور چیئرمین اوگرا کے بحالی کے احکامات جاری کر دیئے۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کسی بھی آفیسر کو اس کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جبری رخصت پر نہیں بھیجا جا سکتا بغیر تحقیقات کے ان کو عہدہ سے نہیں ہٹایا جا سکتا۔ منگل کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس نور الحق این قریشی کی عدالت نے سابق چیئرمین اوگرا سعید احمد خان کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے وفاقی حکومت کی جانب سے چیئرمین اوگرا سعید احمد خان کو تین ماہ کی جبری رخصت پر بھیجنے کے نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔ منگل کے روز عدالت عالیہ نے سابق چیئرمین اوگرا سعید احمد خان کیس کو محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا۔ گزشتہ ہفتہ اسلام ہائی کورٹ میں سعید احمد خان چیئرمین اوگرا کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے عدالت میں پیش ہو کر دلائل دیئے تھے کہ پٹرولیم مصنوعات کے حالیہ بحران کے دوران حکومت نے اوگرا کے چیئرمین سعید احمد خان کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے تین ماہ کی جبری رخصت پر بھیج دیا اور عہدہ سے بھی ہٹانے کے احکامات جاری کر دیئے ۔انہوں نے موقف اختیار کیا تھا کہ پٹرولیم مصنوعات کا بحران کا ذمہ دار صرف چیئرمین اوگرا کو نہیں ہٹایا جا سکتا بلکہ اس میں وزارت پٹرولیم و قدرتی وسائل اور دیگر متعلقہ اداروں کے افراد بھی شامل ہیں کسی ایک آفیسر کو ٹارگٹ کر کے بغیر تحقیقات کے جبری رخصت پر نہیں بھیجا جا سکتا اور نہ عہدے سے ہٹانے کے احکامات جاری کئے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے عدالت کو بتایا تھا کہ پٹرولیم مصنوعات بحران کے دوران وزیر اعظم پاکستان کی ہدایت پر کیبنٹ ڈویژن چیئرمین اوگرا سعید احمد خان کو عہدہ سے ہٹانے تین ماہ کی جبری رخصت بھیجنے کے احکامات جاری کئے تھے۔ چیئرمین اوگرا سعید احمد خان کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے عدالت میں یہ بھی دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ حکومت کی جانب سے پک اینڈ چوائس کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے سعید احمد خان کے خلاف کارروائی کی اور پٹرولیم بحران کا ذمہ دار ان کو ٹھہرایا بلکہ اوگرا کے دیگر افراد کے خلاف کوئی تحقیقات نہیں کی گئی ۔ جس پر عدالت نے عاصمہ جہانگیر کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔

مزیدخبریں