اضافی گندم کا نیا بحران

وفاقی حکومت میں وزارت خوراک و زراعت کے نہ ہونے سے جو خرابیاں ہو رہی ہیں وہ ایک لمبی داستان ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے اپنے دور میں گندم کی امدادی قیمت 625 روپے فی من سے بڑھا کر 1200 سو روپے فی من کر کے ایک کارنامہ انجام دیا اور یہ نہ سوچا کہ اس سے شہروں میں آٹے کی مہنگائی ہو گی بلکہ ان کی سوچ یہ تھی کہ ہمیں کسانوں کے ووٹ ملیں گے مگر وقت نے انہیں دکھایا کہ 2013ء میں انہیں پنجاب کے دیہی علاقوں اور خاص طور پر پنجاب میں کیا ملا گذشتہ دو تین سالوں میں پنجاب میں صوبائی حکومت کے بعض اچھے کاموں کی وجہ سے اور کسانوں کی محنت سے اچھی فصلیں آئیں۔ محکمہ خوراک پنجاب گندم خریداری کا بھی ٹارگٹ مقرر کرتا ہے وہ ضرورت کو بنیاد بنانے سے زیادہ سیاسی بنیاد بننے کی وجہ سے ہوتا ہے گذشتہ برس 37 ٹن گندم خریدی گئی اور اس سلسلہ میں اس قسم کی ’’محنت‘‘ کی گئی کہ پرائیویٹ طور پر فلور ملز کی گندم کو بھی بزور ڈی سی او روک روک کر گندم جمع کر لی گئی اور جب گندم کی نکاسی کا وقت آیا تو پہلے رمضان المبارک میں ہی محکمہ کے افراد یہ چاہ رہے تھے کہ فلور ملوں کی اپنی گندم ہی خرچ ہو اور رمضان پیکج کی سبسڈی کلیم کے ذریعے ملوں کو ادا کر دی جائے۔ اللہ بھلا کرے میاں شہباز شریف صاحب کا جنہوں نے فوری مداخلت کی اور بدعنوانی پر مبنی اس پالیسی کو بدل کر رمضان المبارک میں سرکاری گندم کا اجرا کیا اور دو اڑھائی لاکھ گندم کا سستا آٹا غریب صارفین تک پہنچا۔ اسکے بعد بھی کوئی پالیسی نہ بنی کہ 37 لاکھ ٹن گندم کا اجراء کیسے کیا جائے۔ اس میں ایکسپورٹ سمیت فلور ملز کے ذریعے اجراء بھی شامل تھا مگر اس سلسلہ میں خاموشی نے طبل تباہی بجا دیا اور جب گندم کا اجراء شروع کیا گیا اس سے ذرا پہلے وفاقی وزارت خوراک نہ ہونے کے باوجود بڑے ہی گھمبیر انداز میں سندھ کے امپورٹ مافیا نے روس کی ریاستوں سے بڑی سستی گندم درآمد شروع کر دی۔ یہ ایک ایسا قدم تھا جس نے سندھ کی سرکاری گندم کو گوداموں میں ہی محدود کر دیا جبکہ پنجاب کی اوپن مارکیٹ میں بھی اس خبر سے گندم کا مندا شروع ہو گیا اور ایسے حالات میں متعلقہ ایسوسی ایشن گندم ذخیرہ کرنیوالے اداروں نے گندم کی ناجائز درآمد کو روکنے کی کوشش بھی نہ کی جبکہ راقم الحروف نے پنجاب کی حکومت کے ذریعے وفاق پر اس مسئلہ کو اجاگر کیا جنہوں نے گندم درآمد پر 20 فیصد درآمدی ڈیوٹی لگا کر اس کا راستہ روک دیا۔ اس ناجائز امپورٹ کے منفی اثرات بعض دوسری وجوہات کیساتھ مل کر آج کے گندم کے اضافی سٹاکس کے بحران کا سبب ہیں اور وزیراعظم پاکستان کو اس کا نوٹس لے لینا چاہئے کیونکہ اس صورتحال میں ملک و قوم کا بہت نقصان ہوا ہے اور گندم کے جائز سٹاکسٹ کا اعتماد بھی مجروح ہوا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ اس وقت بھی ملک میں تقریباً 50 لاکھ ٹن گندم کے ذخائر موجود ہیں اور اسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے وفاقی حکومت کی وزارت فوڈ سکیورٹی بھی نیند سے جاگی اور جہاں پوری دنیا اپنی اپنی فصلوں کی منتظر ہے اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں اچھی فصلوں کی خوشخبری ہے وہاں فروری میں ان نیند سے جاگے افراد نے گندم اور آٹے کی آٹھ دس لاکھ ٹن برآمد کی اجازت دے دی اور قومی خزانہ سے 90 ڈالر فی ٹن کے ریبیٹ کا بھی اعلان کیا۔ اب یہ سوچئے کہ نئی فصل کے آنے میں تھوڑے دن رہ گئے ہیں (سندھ) میں اور پوری دنیا میں بھی فصلیں آرہی ہیں تو ا ن محدود دنوں میں ہماری گندم یا آٹا کونسے ملک لیں گے۔ طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ فصل آنے کے فوراً بعد اس کا اندازہ لگایا جاتا ہے کہ فاضل گندم کتنی ہے اور اس میں سے دس لاکھ ٹن رکھ کر باقی گندم کی برآمدی پالیسی جون میں بنا دی جائے اور یہ پورے سال پر محیط ہوتا ہے کہ لوگ ایکسپورٹ کے لئے کافی ٹائم لے کر انہیں تلاش کریں اور ایکسپورٹ میں کامیاب ہو جائیں۔ گندم خریدنے والے بھی شروع سے ہی سال کی منصوبہ بندی کرتے ہیں اور گندم فروخت کرنیوالے بھی۔ ہمارے فیصلے بھی کرکٹ ٹیم کی طرز کے ہوتے ہیں کہ آخری اووروں میں جیت کے قریب بھی ہوں تو خود کو اتنا دباؤ میں لے جاتے ہیں کہ ہار جاتے ہیں اس سے بہتر تھا کہ پالیسی ساز چند مہینے پہلے گندم کے اجراء کو یقینی بنانے کیلئے گندم کا اجرائی ریٹ عوام لئے سستا کر دیتے تاکہ عوام بھی خوش اور گندم کا اجراء بھی ممکن ہو جاتے۔ میاں صاحب کی تمام تر کوششوں کے باوجود بھی ملک میں 45 لاکھ ٹن گندم بچ جائیگی جس کا سرکاری خزانے پر بوجھ اربوں روپے میں جانا ہے لیکن اس صورتحال کا فائدہ عوام کو پہنچنا ہے اور عوام جو آٹے کا تھیلا گذشتہ برسوں میں 800 روپے کا کھا رہے تھے اب وہ 760 اور اس سے بھی کم کھا رہے ہیں جو بہرحال ایک اچھی بات ہے مگر ہمارے پالیسی ساز ادارے اگر آنکھیں کھول کر رکھتے اور کاشت کاروں کے نمائندے اور فلور ملز کے نمائندے اگر ان پر زور ڈالتے تو شاید گندم کا یہ حال نہ ہوتا کہ حکومت اگلی بڑی فصل نکالنے کیلئے فکرمند ہو گئی مگر اس خاموشی کا کیا مقصد ہے یہ سب فریق بنے ہوئے تھے اور کسی اور کی بجائے قوم کو نقصان پہنچا رہے تھے۔ اس کا فیصلہ تو بڑے لوگ ہی کر سکتے ہیں۔
میری گزارش ہو گی وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف سے کہ خدارا غلط پلاننگ کرنیوالوں کے ذریعے ملک کے زرعی شعبہ کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔ اگر وہ اچھی فصلیں دے رہے ہیں تو انہیں و ماحول وہ مالی آسودگی فراہم کی جائے جس میں رہ کر وہ اپنے فرائض اور اپنی روٹی کماتے اور ہمارے لئے اگاتے رہیں اور اگر صوبوں نے خود ہی درآمد کے فیصلے کرنے ہیں تو پھر یہ معاملہ جو اضافی گندم کا ہے یہ تو یونہی چلے گا پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ اس سلسلہ میں فیصلے اور بروقت فیصلے ہی مکمل تباہی سے بچا سکتے ہیں لہٰذا وفاقی سطح پر پاکستان ویٹ بورڈ، پاکستان رائس بورڈ وغیرہ بنائیں۔ جن میں کاشت کار، زرعی ماہرین، فلور ملنگ ماہرین اور سرکاری نمائندہ شامل ہوں اور وہ فیصلے کریں کہ کب گندم امپورٹ یا ایکسپورٹ ہونی ہے۔ اس سال تو جو خرابیاں ہو چکیں ان کا مداوا نہیں ہو سکتا مگر آئندہ پالیسی مئی میں دے دی جائے تاکہ سارا سال موجود ہو اور ایک اچھے ماحول میں ایکسپورٹ کر کے کسانوں کا تحفظ کیا جائے اور ملکی خزانہ کو نقصان سے بچایا جائے۔

ای پیپر دی نیشن