تھانوی مکتب کا درویش

Mar 18, 2016

امتیاز احمد تارڑ

لطافت سے بھری زبان سے چاردانگ عالم کو اپنا گرویدہ بنانے والے حضرت مولانا عبیداللہ اشرفیؒ کے زمانے میں جامعہ اشرفیہ کو جو عروج ملا وہ قسمت والی دینی درس گاہوں کو ملا کرتا ہے، حضرت مولانا مفتی حسنؒ کا لگایا پودا ان کے بچوں کی نگہداشت سے ایک تناور درخت بن چکا ہے، جامعہ اشرفیہ محض ایک بلڈنگ کا نام نہیں بلکہ وہ ایک عالمی یونیورسٹی ہے۔ جس میں ہزاروں طلباء علم کی پیاس بجھانے جوق در جوق آتے ہیں، ہم لوگوں نے حضرت قاسم نانوتویؒ کی حکمت ، حضرت کنگوہیؒ کی فقاہت، حضرت شیخ الہندؒ کی جرأت، حضرت تھانویؒ کی بصیرت، حضرت انور شاہ کشمیریؒ کی ذہانت، حضرت مدنیؒ کی استقامت، حضرت امرتسریؒ کی عزیمت کو حضرت مولانا مفتی عبیداللہ اشرفیؒ کی شکل میں دیکھا ہے۔ مولانا عبیداللہ تھانویؒ مکتب کے ایک ایسے آخری درویش تھے جنہوں نے بچپن حضرت حکیم الامت کے گھر گزارا اور درس نظامی کی ہر کتاب کی ابتدا مولانا اشرف علیؒ سے کی۔ آپؒ کو مولانا انور شاہ کشمیریؒ کے سامنے دو زانوں تلمذ کا شرف حاصل تھا جبکہ مولانا اعزاز علیؒ سے بھی کسب فیض حاصل کر رکھا تھا، وہ ایک ایسے عالم تھے جن کا اوڑھنا بچھونا علم تھا، سوشل میڈیا پر ان کی ایک ویڈیو گردش کر رہی ہے جس میں آپؒ کے صاحبزادے کہتے ہیں ابا جی کوئی نصیحت کردیں تو۔۔۔ آپؒ بڑے لطیف اور خوبصورت انداز میں بچوں کو دین پر استقامت کی نصیحتیں فرما رہے تھے۔ ۔۔آپ کی نظر کیمیا اثر نے ہزاروں لوگوں کی کایا پلٹی۔ مگر ہم کتنے بدنصیب ہیں کہ چشمہ بہتا رہا مگر ہم پیاسے ہی رہے۔ نیزتاباں کوہ دامن کو منور کرتا رہا مگر ہم نے اپنی آنکھیں بند کیے رکھیں، حضرت مولانا عبیداللہؒ میرے مادر علمی جامعہ دارالعلوم الاسلامیہ کے صدر بھی تھے۔ آپ کی کمال شفقت سرپرستی کے باعث جامعہ دارالعلوم الاسلامیہ بھی ایک یونیورسٹی کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ نواسہ حکیم الامت حضرت مولانا مشرف علی تھانوی کی دن رات محنت اور دعائوں کے طفیل جامعہ دارالعلوم الاسلامیہ سے بھی طلباء روایت حفص ،قرات شعبہ عشرہ ،درس نظامی، ایم اے تک عصری علوم کی تعلیم اور اب ایل ایل بی کر کے نکل رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس گلشن کے نکھار کو مزید چار چاند لگائے اور اسے حاسدوں، شریروں اور فسادیوں سے محفوظ رکھے۔ جامعہ اشرفیہ اور جامعہ دارالعلوم الاسلامیہ دونوں فرقہ واریت سے کوسوں دور ہیں۔ ان کا کام محبت کے پیغام کو پھیلانا ہے نہ کہ دین کے کسی ایک جز کو کل کے طور پر پیش کرنا ہے۔آپ علم و عمل اور زہد و تقویٰ کے پیکر تھے آپ کا تعلق اْن علماء حق کے ساتھ ہے جن کے آباؤ اجداد نے تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لیا آپکے والد گرامی بانی جامعہ اشرفیہ حضرت مولانا مفتی محمد حسن نے اپنے پیر و مرشد مولانا اشرف علی تھانوی کے حکم پر شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی ، مولانا ظفر احمد عثمانی مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع اور دیگر علمائے دیوبند کے ہمراہ تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لیا جس کے نتیجہ میں پاکستان بننے کے بعد مشرقی و مغربی پاکستان پر آزادی کا پرچم لہرانے کی سعادت ’’بزم اشرف‘‘ کے روشن چراغ اور دارالعلوم دیوبند کے قابل فخر سپوتوں کے حصے میں آئی،جبکہ 1857ء جنگ آزادی میں بھی علماء نے بڑی قربانیاں دیں ہندوستان سے اسلام اور مسلمانوں کو ختم کرنے کے لئے انگریزوں کی یہ پالیسی تھی کہ(1) سب سے پہلے قرآن مجید کو ختم کرنا چاہیے (2) علماء کرام کا قتل عام۔ (3) جذبہ جہاد کو ختم کرنا چاہیے۔چنانچہ انگریز نے اس پر عمل درآمد شروع کردیا تین سال کے اندر قرآن پاک کے تین لاکھ نسخے نذر آتش کردیئے اور 4000 چودہ ہزار علماء کرام کو پھانسی دی گئی۔

تھامسن اپنی تاریخ میں لکھتا ہے کہ دہلی سے لے کر پشاور تک جرنیل سڑک کے دونوں طرف کوئی بڑا درخت ایسا نہیں تھا جس پر کسی عالم کی لاش لٹکتی نظر نہ آ رہی ہو۔ بادشاہی مسجد میں پھانسی کا پھندہ لٹکایا گیا اور دیگر مسجدوں کے اندر علماء کرام کو پھانسی دی گئی۔تھامسن اپنی یادداشت میں لکھتا ہے کہ میں دہلی گیا تو کیمپ میں ٹھہرا ہوا تھا مجھے وہاں انسانی گوشت کے جلنے کی بدبو محسوس ہوئی۔ میں پریشان ہو کراٹھا کہ یہ کیا معاملہ ہے؟ جب کیمپ کے پیچھے جا کر دیکھا تو کچھ انگریزوں نے انگارے جلائے ہوئے تھے اور چالیس علماء کو بے لباس کر کے ان انگاروں کے پاس کھڑا کیا ہوا تھا اور انہیں یہ کہا جا رہا تھا کہ تم ہمیشہ کے لئے ہمارا ساتھ دینے کا وعدہ کرو نہیں تو تمہیں انگاروں پر لٹکا دیں گے۔ انہوں نے انکا کیا تو چالیس علماء کو انگاروں پر لٹا دیا گیا۔ یہ ان کے گوشت جلنے کی بدبو تھی جو خیموں میں بھی محسوس ہو رہی تھی۔ وہ کہتا ہے کہ اسی طرح چالیس علماء شہید ہو گئے تو پھر چالیس اور علماء کو بھی اسی طرح اوپر لٹایا گیا۔آپ بھی انھیں علماء کے علمی اور روحانی وارث تھے،آپ 1953ء سے 1961ء تک جامعہ اشرفیہ لاہور میں درس و تدریس کے ساتھ ساتھ ناظمِ تعلیمات کے عہدہ پر بھی فائز رہے اس دوران حضرت مفتی محمد حسن نے اپنی زندگی ہی میں آپ کو جامعہ اشرفیہ لاہور کے مہتمم کا عہدہ تفویض فرمادیا۔ آپ کی وفات تک یہ سلسلہ55 سال تک جاری رکھا اور آپ نے اس منصب کا حق ادا کیا۔ آپ کے اخلاص و للہیت کی وجہ سے جامعہ اشرفیہ لاہور بڑی تیزی کے ساتھ ترقی اوراپنی علمی و دینی منازل طے کرتے ہوئے آج پوری دنیا میں ثانی دارالعلوم دیوبند کی حیثیت سے مشہور و معروف ہے اس وقت پوری دنیا میں جامعہ اشرفیہ لاہور کے فیض یافتہ دین حنیف کی خدمت میں مصروف ہیں دنیا بھر میں جامعہ کے فضلاء درس و تدریس کے فرائض سرانجام دینے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مولانا محمد عبیداللہ کو انتہائی نیک و صالح اولاد سے نوازاجن میں پانچ بیٹے قاری احمد عبید، قاری ارشد عبید، امجد عبید، حافظ اسعد عبید‘ حافظ اجود عبید اور دو بیٹیوں سے نوازا۔ ان میں سے ہر کوئی شب و روز دین کی اشاعت اور جامعہ اشرفیہ کی خدمت میں مصروف عمل ہیں اور آگے ان کی اولادیں بھی تعلیم و تدریس کی خدمت سرانجام دے رہی ہیں۔آپ جامعہ اشرفیہ لاہور کے مہتمم کے منصب پر فائز رہنے کے ساتھ ساتھ ممبراسلامی نظریاتی کونسل آف پاکستان بھی رہے اور حکومت پاکستان نے آپ کی قومی و ملی خدمات پر آپ کو تمغہ ستارہ امتیاز سے بھی نوازا۔آپ اپنی زندگی کے آخری لمحات تک دین کی خدمت اور درس و تدریس میں مصروف رہے۔نماز جنازہ میں لوگوں کی کثرت کے وجہ سے جامعہ کی مسجد و مدرسہ کی چھتوں گراؤنڈ میں جگہ کم ہوجانے پر جامعہ کے اطراف میں کنال روڈ پر بھی لوگوں کی بڑی تعداد نے سڑک کے کنارے نماز جنازہ ادا کی۔ مرحوم کو بعد میں مقامی قبرستان شیر شاہ اچھرہ لاہور میں سپرد خاک کر دیا گیا۔
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را

مزیدخبریں