جناب مجید نظامی

معاشرے میں کسی بھی فرد یا باوقار شخصیت کا اندازہ اس کے متعلقہ پیشے میں اس کی نمایاں کارکردگی سے لگایا جاتا ہے ، مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے شعبے میں کارہائے نمایاں سرانجام دینے کے بعد اس پیشے کی پہچان اور وقار کی علامت بن جاتے ہی۔ صحافت ایک مقدس مشن ہے جو آج کے ترقی یافتہ دور میں کاروبار کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے، اس دور میں بامقصد صحافت کے علم کو اٹھائے دلیرانہ عزائم کے ساتھ سچائی کی آواز کو بلند کرنے والے کم ہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنی پوری زندگی صحافتی مشن کی تکمیل کے لئے وقف کر دی وہ جہاں مشکل ادوار میں شب و روز محنت و استقامت سے سرخرو ہوئے، وہاں ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہر آمر اور جابر کے سامنے کلمہ حق کہنے سے بھی نہیں ہچکچائے۔ ہردور میں ان کی آواز کو دبانے اور سچائی کو خریدنے کی کوشش ہوئی، مگر کوئی غیر فطری عمل ان کی صحافتی عقیدت کو تسخیر نہ کر سکا، خواہ گورنری کا عہدہ ہو یا صدارتی کرسی، ان کے پائوں کی ٹھوکر پر رہی۔ یہ صحافی ہر دور میں پاکستانی صحافت کی شان، آن اور پہچان بنے رہے۔ ریاست کا چوتھا ستون جن کے دم سے قائم ہے، ان میں سرفہرست نام جناب مجید نظامی کا ہے، نوائے وقت گروپ کے سربراہ اور مدیر اعلیٰ روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ کسی تعارف کے محتاج نہیں، شعبہ صحافت سے تعلق رکھنے والا ہر فرد ان کی سوچ اور طرز عمل کو اپنانے پر نہ صرف فخر کرتا ہے، بلکہ عہد کرتا ہے کہ زندگی میں ان کی تقلید کو اپنا شعار بنائے گا۔
آپ 3 اپریل 1938ء کو سانگلہ ہل میں پیدا ہوئے، تعلیم کا آغاز آبائی علاقے سے کیا۔ میٹرک اول پوزیشن میں گورنمنٹ ہائی سکول سانگلہ ہل سے کرنے کے بعد ایف اے اور بی اے گورنمنٹ کالج لاہور سے کیا۔ ایم اے سیاسیات کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے انگلینڈ چلے گئے، جہاں انٹرنیشنل افیئرز اور بار ایٹ لاء میں داخلہ لیا۔ لندن سے انٹرنیشنل افیئرز کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد بار ایٹ لاء کی تعلیم بھائی حمید نظامی مرحوم کی علالت کے باعث ادھوری چھوڑنا پڑی۔ وطن واپسی پر نوائے وقت کی اہم ذمہ داری سپرد کر دی گئی‘ جسے حمید نظامی مرحوم کی وفات کے بعد بطریق احسن پورا کیا۔ ایک اخبار کو لے کر چلے تھے‘ آج روزنامہ’’ نوائے وقت‘‘ کے ساتھ ’’ دی نیشن‘‘ اور دیگر کئی میگزین‘ نوائے وقت گروپ کے زیر اہتمام شائع ہو رہے ہیں اور جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوتے ہوئے الیکٹرانک چینل کا ’’ وقت‘‘ کے نام سے آغاز کر چکے ہیں۔ وہ نوائے وقت کی مینجمنٹ کے ساتھ اس کی ادارتی شعبے سے بھی پوری طرح منسلک رہے‘ حمید نظامی مرحوم کے دور میں ’’سررا ہے‘‘ کے عنوان سے آپ کے تحریر کردہ کالم مقبول عام تھا‘ بے پناہ مصروفیت کے باوجود ادارئیے سے لے کر اخبار میں چھپنے والی ہر خبر پر آپ کی گہری نظر ہوتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں’’ نوائے وقت‘‘ کو ملک کا معتبر ترین اخبار سمجھا جاتا رہا ہے۔ پاکستان کے نامور صحافی ’ دانشور جناب مجید نظامی سے گفتگو قارئین کیلئے یقیناً دلچسپی اور معلومات کا باعث ہو گی۔
س: آج کے دور میں تحریر کی اہمیت اپنی جگہ‘ مگر غیر موثر سی لگتی ہے‘ اس کی کیا وجہ ہے؟
مجید نظامی: اس بارے میں‘ میں بہت کھلے لفظوں میں کہوں گا کہ صحافتی تحریر ہمیشہ سے ایسی ہی رہی ہے‘ قیام پاکستان سے پہلے اور بعد کے دور کی مثال لیں‘ اس وقت زمیندار کے علاوہ کئی اخبارات نکلتے تھے جو حکومت کے وظیفہ خوار تھے‘ کیونکہ اگر آپ ایک حکومت کے ثناء خواں بن جائیں تو اگلی حکومت کی ثناء خوانی کیلئے بھی منتظر رہتے ہیں۔ 58ء میں ایوب خان کا مارشل لاء لگا‘ اس وقت این پی ٹی یعنی نیشنل پریس ٹرسٹ بن گیا‘ جس سے لیل و نہار‘ پاکستان ٹائمز‘ امروز‘ مشرق‘ مارننگ نیوز جیسے پروگریسو اخبارات حکومتی تحویل میں چلے گئے۔ اب اگر آپ کو اشتہار استحقاق سے زیادہ ملیں‘ چیک اینڈ بیلنس نہ ہو اور کوئی پوچھنے والا بھی نہ ہو تو پھر تحریر کی عزت کم ہو جاتی ہے۔ کچھ ایسا ہی اس وقت بھی ہوا لیکن بہر حال یہ حقیقت ہے کہ اس زمانے میں بھی نوائے وقت ایسا اخبار تھا جس نے قلم کی حرمت کو برقرار رکھنے کیلئے جدوجہد کی اور بہت سی قربانیاں بھی دیں‘ اسے بارہا اشتہارات کی بندش کی صورت میں وار سہنا پڑتے تو کبھی نیوز پرنٹ کی بندش آڑے آئی‘ کیونکہ اس وقت نیوز پرنٹ مشرقی پاکستان سے کوٹہ سسٹم کے تحت آتا تھا اور اس کیلئے حکومتی منظوری کا محتاج ہونا پڑتا‘ اس صورتحال سے بچنے کیلئے ہم نے نیوز پرنٹ امپورٹ کرنا شروع کر دیا‘ مگر اس کیلئے بھی ہم حکومت کے محتاج تھے‘ بہر حال تمام قربانیوں کے باوجود نوائے وقت نے قلم کی عزمت و حرمت کا بھرم قائم رکھا۔ مجھے آج بھی حمید نظامی کے ادارئیے کے وہ حروف یاد ہیں جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ ’’میں قلم کی عصمت کو ماں بہن کی عصمت سے زیادہ اہمیت دیتا ہوں‘‘۔ میں خود 45 سال سے ’’نوائے وقت‘‘ کی ذمہ داری ادا کر رہا ہوں۔ فروری 62ء میں حمید نظامی کا انتقال ہوا تھا’ اس کے بعد سے اب تک ان کے سونپے ہوئے قلم کی حرمت کے تحفظ کا مشن پوری دیانتداری سے ادا کر رہا ہوں۔
س: نوائے وقت کا صحافتی کردار اپنی جگہ‘ مجموعی طور پر اخباری دنیا کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
مجید نظامی: دراصل آج ہر کسی کو اپنے مفادات کے تحفظ کی فکر ہے’ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنے سرمائے‘ اپنے محل‘ گاڑیوں کا تحفظ کرے‘ اسے خواہ مخواہ کو مصیبت میں ڈالنے کی کیا ضرورت ہے اور یہی رویہ تحریر کی اہمیت میں کمی کا باعث بھی بنتا ہے۔ (جاری)

ای پیپر دی نیشن