اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ میں سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کے ساتھ بدسلوکی کیس میں پیش کیا جانیوالا مشروط معافی نامہ عدالت نے مسترد کر دیا ہے، عدالت نے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت اپریل کے تیسرے ہفتے تک ملتوی کردی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کسی کا ذاتی نہیں ادارے کا کیس ہے اس طرح کے واقعات سے ادارے کمزور ہوتے ہیں، شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے کی کوشش کرتے ہیں، افتخار چودھری کے ساتھ بدسلوکی سے متعلق فیصلہ میرٹ پر کیا گیا ہے اگر فیصلے میں سقم ہے تو وکلا بحث کریں، شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں نے ریاست کے اداروں کو کمزور کیا، آئین کسی عام شہری کی پگڑی اچھالنے کی اجازت نہیں دیتا لیکن شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ساری حدیں پار کر دیتے ہیں انکوائری میں ذمہ داری کم عائد کرنے کی وجہ سے ملوث پولیس افسروں کو کم سزا ہوئی، پولیس کے وکیل نے کہا معاملہ اتنا نہیں تھا جتنا ایشو بنا دیا گیا، ایسا کوئی واقعہ وہاں پیش نہیں آیا، جسٹس امیر ہانی مسلم نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا آپ کے نزدیک ایک حاضر سروس جج کے ساتھ بدسلوکی کرنا کوئی ایشو نہیں؟ اگر پولیس افسروں کی جانب سے معافی کی استدعا نہ آتی تو عدالت معاملے پر سخت ترین کارروائی کرتی، معافی کی استدعا آنے پر ہی عدالت نے تاحال نرم رویہ اختیار کر رکھا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا ہے کہ ریاست کے عہدیدار جب فرد واحد کی تابعداری کرتے ہیں تو اس سے ادارے کمزور اور ملک کی تباہی ہوتی ہے۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ کسی کو تھپڑ مارنے کے بعد معافی مانگنا بہت آسان ہے جبکہ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا ایک طرف ملزم کہہ رہے ہیں کہ بدسلوکی نہیں ہوئی اور دوسری طرف معافی مانگ رہے ہیں جب واقعہ ہی نہیں ہوا تو پھر معافی کس بات کی۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا ملزم پہلے واقعہ تو قبول کرلیں تاکہ پتہ تو چلے کہ واقعہ ہوا ہے یا نہیں، ویسے میڈیا پر سب نے دیکھا کہ اس روز ہوا کیا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا جب ریاست کے عہدیدار ایک شخص کے حکم پر کام کرتے ہوں تو پھر نقصان ریاست کا ہی ہوتا ہے، جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا سکیورٹی اہلکاروں کا کام سکیورٹی یقینی بنانا ہوتا ہے فریق بننا نہیں۔ ایک اور وکیل اعظم تارڈ نے کہا کہ تین رکنی بینچ نے جرح کے بغیر فیصلہ صادر کیا ہے اس پر چیف جسٹس نے کہا فیصلہ میرٹ پر ہوا ہے اور اس میں ہر پہلو کا احاطہ کیا گیا ہے۔