پچھلے سال جب یمن میں حوثی باغیوں نے منصور ہادی کی حکومت کیخلاف کھلی جنگ شروع کردی تو سعودی عرب بھی اس خطے میں زیادہ فعال نظر آنے لگا۔اس اَپریشن میں القاعدہ اور داعش نے کئی جگہ پر کامیاب حملے کئے جس سے سعودی عرب کو اپنے لئے مستقبل میں خطرہ بڑھتا ہوا نظر آیا۔اگرچہ سعودی فضائی قوت حوثیوں کو تباہی کے دہانے تک لے آئی تھی پھر بھی وہ اپنی افواج کوزمینی جنگ میں اتارنے سے گریزاں تھے۔ شاہ سلمان نے، جو پرائم منسٹر بھی ہیں، 28اپریل 2015 کو اپنی کابینہ میں ردوبدل کیا۔شہزادہ مقرن کو ولی عہدی سے معزول کر کے شہزادہ محمد بن نائف کو ولی عہد نامزد کیا اوراسے ڈپٹی پرائم منسٹر اوّل ووزارتِ داخلہ کا قلمدان بھی سونپ دیا۔ اپنے بیٹے محمد بن سلمان کو نائب ولی عہد، ڈپٹی پرائم منسٹردوم و وزیرِ دفاع کاعہدہ سونپا۔ اور امریکہ میں تعینات سفیر عدیل بن احمد الجبیر کو واپس بلواکر وزیرِ خارجہ مقرر کردیا۔اسکے ساتھ ہی امریکہ ، یورپ اور برطانیہ کی آشیر بادکے ساتھ مسلمان ممالک سے سعودی عرب کی سالمیت کے دفاع کیلئے فوجی امداد طلب کی گئی۔ فوجیں بھجوانے کیلئے سب سے زیادہ امید اور پریشر پاکستان پرتھا۔پاکستان نے جو خود ایک عشرہ سے زیادہ عرصہ سے حالت جنگ میں تھااور سرِ دست حرمین شریفین کو اسقدر خطرہ بھی لا حق نہ تھا، پارلیمنٹ کے فیصلے کے مطابق فوجیں بھجوانے سے معذرت کرلی۔تاہم ارض مقدس کی حرمت سے اپنے کنسرن کا اعادہ ضرور کرلیا۔ متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ نے پاکستان کواپنی جنگ درمیان میں چھوڑ کر انکی جنگ میں نہ کودنے پر خاصا متکبّرانہ اور دھمکی آمیز بیان سے نوازا مگر ہم نے اسے نظر انداز کردیا تاکہ مسلمان ممالک میں تعلقات خراب نہ ہوں۔ اُدھر شام میں جنگ تیز ہورہی تھی اور بین الاقوامی دہشت گردوں کاپلّہ بھاری تھا۔سعودی عرب کو یہ خطرہ تھا کہ اسکے بعد یہ داعش وغیرہ پورے عرب علاقے کا امن بربادکر دینگے جو شائد پہلے ہی صرف سعودی عرب اور انکے قرب و جوار تک محدود تھا۔ حالات کا تقاضا تھاکہ سعودی عرب اپنے لئے بہتر حصار بندی کرلے۔ اس منظر نامے میں دو نئے حقائق سامنے آئے۔ ایک ستمبر 2015میں روس نے بشارالاسدکی حمائت میں اپنی فوجیں شام میں داخل کردیں جنہوں نے مخالف فورس کو کافی نقصان پہنچایا اور اسد کی فورس اس حد تک طاقت پکڑ گئی کہ جنیوا میں کئی سالوں سے جاری امن مذاکرات میں کوئی پوزیشن سنبھال سکے۔ اب 15 مارچ کو اوباما اور پوٹن کے درمیان ٹیلیفونک رابطے کے بعد روسی صدر نے اپنی زمینی افواج کے فوری انخلاء کا اعلان کردیاہے ۔کچھ مبصرین کیمطابق یہ بشارالاسد پر دباؤ ڈالنے کیلئے ہے تاکہ وہ امن مذاکرات سے برآمد ہونیوالے سیاسی حل کو تسلیم کرلے۔ تقریباً 250,000 انسانوں کی قربانی کے بعد بھی اسد کے مستقبل کے متعلق کوئی اشارے نہیں ملتے۔
دوسری بڑی حقیقت سعودی عرب کا34اسلامی ملکوں پر مشتمل ایک فوجی الائنس کا تیار کرنا ہے۔جو 15دسمبر 2015کو شہزادہ محمد بن سلمان کی قیادت میں تشکیل پایا۔اسکا نام’’Islamic Military Alliance to Fight Terrorism (IMAFT)‘‘ہے۔ 34ملکوں کی فہرست نکالی گئی جن میں سے ہر ایک کو ملٹری رول (باقاعدہ لڑنا)اور سپورٹ، دونوں پر کمٹمنٹ واضح کرنی تھی۔اس میں شمولیت کرنیوالے ممالک زیادہ تر اسی خطے سے جڑے ہوئے تھے باقی کاردِعمل کچھ اسطرح کا آیا۔بنگلہ دیش پارلیمنٹ نے ملٹری رول اور سپورٹ دونوں ذمہ داریاں اٹھانے کا وعدہ کر لیا ماسوائے ایسے آپریشن کے جو کسی شیعہ علاقے کیخلاف ہو۔پاکستان اور ملائشیا نے سپورٹ کی حامی بھر لی مگر کوئی ملٹری رول نہیں لیا۔سب سے بڑے مسلمان ملک انڈونیشیاکے علاوہ افغانستان، تاجکستان اور آذر بائیجان نے اس پر اپنا فیصلہ Pending ہی رکھا۔اس فورس کیلئے طے پایا کہ اسکا ہیڈکوارٹر ریاض سعودی عرب میں ہوگا۔ آپریشن کا علاقہ افریقہ،سائوتھ ایشیا اور مڈل ایسٹ ہوگا۔ اسکے چار اغراض ومقاصد کچھ اسطرح درج ہیں۔ یہ افواج (1)مسلم ممالک کو تمام دہشت گرد گروپس اور تنظیموں سے محفوظ کرینگی چاہے وہ کوئی بھی نام یا فرقہ رکھتی ہوں (2)دہشت گردوں سے عراق ، شام، لیبیا، مصر اور افغانستان میں جنگ کریں گی۔UNO(3 )اور OICکے چارٹرز میں دہشت گردوں کیخلاف دی گئی رہنمائی کے مطابق اَپریشن کریں گی۔(4)امید کی جاتی ہے کہ شام میںISIS(داعش)کیخلاف جنگ میں اتاری جائینگی جو شائد اصل مقصد تھا۔
ان حالات میں ہمارے سعودی عرب ، ایران و دیگر ممالک سے رابطے تیز رہے تاکہ ہمارے متعلق کسی قسم کی غلط فہمی یا ہمارے فیصلوں پر کوئی ابہام نہ رہے۔مگر دوسری طرف ہم پر ہر طریقے سے اس فورس میں اپنے فوجی بھیجنے کیلئے پیار اور دباؤ بڑھایا گیا جو اب بھی ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گا۔اگر ہم پچھلے سال ہی اس میں جذباتی ہوکر کود پڑتے تو ہماری ترقی کی راہیں مسدود اور حال کے مسائل بڑھ گئے ہوتے ۔ملک کو ایسی صورتحال سے بچانے کا کریڈٹ بہر حال پارلیمنٹ اور گورنمنٹ کو جاتا ہے۔ ابھی چند دنوں پہلے ہمارے وزیر اعظم اور آرمی چیف فوجی مشقیں دیکھ کر آئے ہیں۔انکی وہاں موجودگی کے دوران ہی غالباًواشنگٹن پوسٹ نے یہ شوشا چھوڑا کہ جنرل راحیل شریف صاحب کو ریٹائرمنٹ پر اس اسلامی فورس کا کمانڈر انچیف لگایا جارہا ہے۔اسے سوشل میڈیا اور کچھ کرم فرماؤں نے خوب اچھالا تاکہ اپنے سپہ سالار سے محبت کرنیوالے پاکستانیوں میں من حیث القوم مایوسی پھیلے، پاکستان کے اس الائنس کیساتھ کسی خفیہ سمجھوتے کا تاثر ابھرے جس سے چین، ایران اور دیگر کئی ممالک کی نظر میں ہمارے متعلق شکوک وشبہات پیدا ہوں۔میں سمجھتا ہوں کہ اگر واقعی کوئی ایسی آفر ہو تو وہ ہمارے لئے اعزاز ہے مگر اس کو مسترد کرنا ہمارے قومی مفاد میں بہت اہم سنگ میل اور قابلِ فخر قدم ہوگا۔
ہمیں اس فورس کا حصہ بنانے کی کوششیں جاری رہیں گی کیونکہ ان سب ممالک میں ماشاء اللہ ہماری فوج فن سپاہ گری اور جنگی تجربات میں اپنا ثانی نہیں رکھتی ۔ اس سے سعودی عرب زیادہ محفوظ محسوس کریگا کیونکہ جنگ پھیلنے کی صورت میں ترکی، مصروغیرہ صرف اپنا آپ سنبھال سکیں گے جبکہ ہم خالصتاً ان کیلئے ہونگے۔ اس سے امریکہ کو بھی اپنے اتحادیوں میں زیادہ اعتماد نظر آئیگا جو اسے علاقے میں اپنے اہداف حاصل کرنے میں مدد دیگا۔ ہمارے ہاں اسکے اثرات کیا ہونگے؟ چین ، روس اور ایران کے ساتھ ہم اپنے تجارتی تعلقات کو بڑھا رہے ہیں اور ہم نے چین کو اس سمندر تک رسائی دی ہے جسکو کنٹرول کرنے کیلئے اوباما نے 2010ء میں انڈیا کو 10بلین ڈالر اسکی نیوی کیلئے دئیے تھے۔سو بلا شبہ ہمارے قومی مفادات خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔پھر ہماری فوج کو مشرق وسطیٰ میں پھنسانے کے بعد انڈیاکو ہمارے ملک میں دہشت گردی کروانے کیلئے میدان کھلا مل جائیگا جو ہم افورڈ نہیں کر سکتے۔لہٰذا ہمیں ہر وقت تیار اور محتاط رہنا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں پر کہیں بھی ظلم ہو سب سے زیادہ درد پاکستان میں محسوس کیا جاتا ہے مگر دوسرے ممالک میں ایسا نہیں ہے۔ سب سے پہلے لوگ اپنے اپنے ملک کے مفاد کو دیکھتے ہیں۔ ہم68 سال سے جنگوں میں ہی ہیں ۔کیاکبھی کسی مسلمان ملک نے ہمارے لئے اپنے فوجیوں کی قربانی دی ہے؟ اگر یہی رواداری ہے تو ہمیں بھی فوجی بھیجنے کے علاوہ ہر طرح کی مدد کرنی چاہیے۔ہاں!اگر سعودی عرب ہمارے والنٹیرز کو اپنی شہریت اور برابر کی مراعات دیکر اپنی فوج میں بھرتی کرنا چاہے تو اسکی اجازت ہونی چاہیے۔ جس طرح کا توازن ہمارے سیاسی و عسکری قیادت نے آج قائم کررکھا ہے اسے قائم رکھنا پاکستان کی ضرورت ہے۔ ہمیں آج کے پر آشوب ، بحیرئہ عرب کے اوپر سے اسی پل صراط پر چل کر سرزمین حجاز تک پہنچتے رہنا ہے۔
’’بحیرہ عرب کا پل صراط‘‘
Mar 18, 2016