کیا اب عدلیہ اور پارلیمنٹ کے صحن میں دفن ہونے کی باری دفعہ 6 کی ہے؟
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس انور ظہیر جمالی پر مشتمل عدالتِ عظمیٰ کے وسیع تر بینچ نے سابق صدر مملکت اور اے پی ایم ایل کے صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنے سے متعلق سندھ ہائیکورٹ کے فیصلہ کیخلاف وفاقی حکومت کی اپیل مسترد کرتے ہوئے گزشتہ روز انہیں ملک سے باہر جانے کی اجازت دے دی۔ فاضل عدالت نے اپنے فیصلہ میں قرار دیا کہ اگر حکومت اور متعلقہ خصوصی عدالت درخواست گزار جنرل (ر) مشرف کی نقل و حمل محدود کرنا چاہے گی تو عدالتِ عظمیٰ کا یہ فیصلہ اس میں حائل نہیں ہوگا۔ گزشتہ روز دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے درخواست گزار کو لاحق عارضہ کی سنگینی سے عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا اور کہا کہ انہیں علاج معالجہ کیلئے فوری طور پر ملک سے باہر لے جانا ضروری ہے کیونکہ انہیں فالج ہونے کا اندیشہ ہے۔ فاضل عدالت نے دوران سماعت ریمارکس دیئے کہ مشرف کا نام ای سی ایل میں ڈالنے سے متعلق عدالت کا کوئی تحریری حکمنامہ موجود نہیں اس لئے حکومت اور خصوصی عدالت مشرف کی نقل و حرکت سے متعلق فیصلہ کرنے میں بااختیار ہے۔ فاضل چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مخاطب ہوتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ای سی ایل میں نام ڈالنا یا نہ ڈالنا وفاق اور خصوصی عدالت کا کام ہے اس لئے سارے کام سپریم کورٹ کے کندھے پر چڑھ کر نہ کرائیں‘ بادی النظر میں حکومت خود کچھ نہیں کرنا چاہتی اور عدالتی شیلٹر چاہتی ہے۔ حکومت اگر مشرف کو بیرون ملک جانے سے روکنا چاہتی ہے تو اس کیلئے علیحدہ آرڈر جاری کرے۔ دوران سماعت اٹارنی جنرل سلیمان اسلم بٹ نے موقف اختیار کیا کہ حکومت نے مشرف کا نام ای سی ایل میں 8 اپریل 2013ء کو سپریم کورٹ کے عبوری حکم کی روشنی میں ڈالا تھا اس لئے جب تک وہ حکم موجود ہے سابق صدر کا نام ای سی ایل سے نہیں ہٹایا جا سکتا۔
اس کیس میں بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ حکومت اور عدالت عظمیٰ دونوں کو مشرف کے ملک سے باہر جانے پر کوئی اعتراض نہیں تاہم ہر دو کی یہی کوشش ہے کہ ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈال دی جائے۔ وفاقی حکومت کے ریفرنس پر چیف جسٹس سپریم کورٹ کی تشکیل کردہ خصوصی عدالت کے روبرو اس وقت مشرف کیخلاف آئین توڑنے کے الزام میں آئین کی دفعہ 6 کے تحت کارروائی عمل میں لانے کا کیس زیرسماعت ہے اور متعلقہ فاضل عدالت نے ملزم پر فردجرم عائد کرنے کیلئے انہیں 31 مارچ کو ذاتی طور پر عدالت میں پیش ہونے کا حکم صادر کر رکھا ہے جبکہ غازی عبدالرشید کیس کی سماعت کرنیوالی خصوصی عدالت نے مشرف کے وارنٹ گرفتاری جاری کرکے انکے ضامنوں کو انہیں 2‘ اپریل کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔ مشرف ان مقدمات میں صرف ایک ایک تاریخ سماعت پر عدالت میں پیش ہوئے جس سے پہلے اور بعدازاں وہ اب تک علالت کے بہانے عدالت میں پیشی سے گریز کررہے ہیں جس کے باعث یہ دونوں مقدمات ابھی ابتدائی سماعت کے ہی مراحل میں ہیں جبکہ ان کیخلاف بے نظیر قتل کیس اور ججز نظربندی کیس بھی زیرسماعت ہے۔ اگر اسکے باوجود مشرف علاج معالجہ کے بہانے ملک سے باہر چلے جاتے ہیں تو یہ ہماری عدالتی اور سیاسی تاریخ کا نیا المیہ ہوگا۔ یقیناً یہ حقیقت ابھی عوام اور قانونی و سیاسی حلقوں کے ذہنوں سے محو نہیں ہوئی ہوگی کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی جنرل مشرف کے ہاتھوں معطلی کے کیس میں سپریم کورٹ کی فل کورٹ نے جسٹس افتخارمحمد چودھری کو بحال کرکے اپنے فیصلہ میں باور کرایا تھا کہ آج ہم نے جرنیلی آمروں کو تحفظ دینے والا نظریۂ ضرورت سپریم کورٹ کے صحن میں دفن کردیا ہے جبکہ میاں نوازشریف اپنے اپوزیشن کے دور میں یہ اعلان کرتے رہے کہ وہ اقتدار میں آکر مشرف کیخلاف غداری کا کیس چلائیں گے۔ انہوں نے اقتدار میں آکر پس و پیش سے کام لیتے ہوئے چھ ماہ نکال لئے اور پھر بادل نخواستہ مشرف کیخلاف غداری کے مقدمہ کیلئے وزارت قانون کے ذریعے چیف جسٹس سپریم کورٹ کو ریفرنس بھجوایا جو انکی حکومت کا تختہ الٹانے سے متعلق 12 اکتوبر 1999ء کے ماورائے آئین اقدام کے بجائے مشرف کے 2ستمبر 2007ء کے اقدام کیخلاف تھا جسکے تحت انہوں نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کرکے اعلیٰ عدلیہ کے 56 کے قریب ججوں کو نظربند کر دیا تھا۔ اس کیس کی ابتدائی سماعت کے دوران وفاقی وزراء خواجہ محمد آصف اور خواجہ سعدرفیق مشرف کو بزدلی کے طعنے دیتے ہوئے ان کیخلاف غداری کیس کو ہر صورت منطقی انجام تک پہنچانے کے دعوے کرتے رہے تاہم اس کیس میں استغاثہ کے وکیل بیرسٹر اکرم شیخ نے اچانک پینترا بدلا اور عدالت میں موقف اختیار کیا کہ مشرف کیخلاف زیرسماعت کیس غداری کا نہیں بلکہ آئین توڑنے کا ہے جبکہ آئین کی دفعہ 6 میں آئین توڑنے کے جرم کو واضح طور پر غداری کے جرم سے تعبیر کیا گیا ہے۔
مشرف نے اس جرم کا ارتکاب چونکہ ملک کی عدلیہ کیخلاف کیا تھا جس کی بنیاد پر سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے وکلاء اور سول سوسائٹی کی تحریک کے نتیجہ میںاپنی بحالی کے بعد ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ سے متعلق مشرف کے 2 ستمبر 2007ء کے اقدام کو باطل قرار دیا اور جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی بطور چیف جسٹس تقرری بھی غیرقانونی قراردے دی چنانچہ اس تناظر میں ملک کی عدلیہ سے یہ توقع وابستہ کی گئی کہ مشرف کیخلاف آئین کی دفعہ 6 کی عملداری کے کیس میں اگر حکومت کی جانب سے کسی مصلحت یا مجبوری کے تحت نرم رویہ اختیار کیا گیا تو عدلیہ اسے ضرور ٹیسٹ کیس بنائے گی اور اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچا کر آئین توڑنے والوں کیلئے عبرت کی مثال بنائے گی‘ تاہم اس وقت اس کیس کے حوالے سے جو منظرنامہ بنتا نظر آرہا ہے اس میں حکمرانوں کی سیاسی مجبوریوں کے باوصف عدلیہ کے نظریہ ضرورت کو دفن کرنیوالے اعلان میں بھی دراڑیں پڑتی محسوس ہو رہی ہیں اور ہر ایک کی کوشش یہی ہے کہ مشرف پر کسی عدالتی یا انتظامی سختی کا الزام ان پر نہ آئے۔ اسی تناظر میں جب مشرف کی درخواست کی سماعت کے دوران گزشتہ روز اٹارنی جنرل نے فاضل عدالت عظمیٰ کے روبرو موقف اختیار کیا کہ وفاقی حکومت نے تو عدالت عظمیٰ کے عبوری حکم کی بنیاد پر مشرف کا نام ای سی ایل میں ڈالا ہے تو فاضل عدالت کی جانب سے انہیں باور کرایا گیا کہ عدالت عظمیٰ نے ایسا کوئی تحریری حکم صادر نہیں کیا۔ اسکے ساتھ ساتھ فاضل عدالت نے یہ قرار دے کر مشرف کے معاملہ کی ساری ذمہ داری حکومت پر ڈال دی کہ مشرف کی نقل و حرکت کے بارے میں جو بھی فیصلہ کرنا ہے وہ حکومت اور خصوصی عدالت نے کرنا ہے۔ فاضل عدالت عظمیٰ کے ان ریمارکس سے بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ عدالت عظمیٰ اپنے خلاف مشرف کے 2 ستمبر 2007ء والے اقدام کی بنیاد پر خود کو اس کیس میں ایک فریق سمجھتی ہے اس لئے وہ انصاف کی عملداری میں مشرف کیخلاف انتقامی کارروائی کا الزام اپنے سر نہیں لینا چاہتی جبکہ حکومت اپنے تئیں یہ تصور کئے بیٹھی ہے کہ چونکہ مشرف کے اقدام کو خود عدالت نے بھگتا ہوا ہے اس لئے وہ خود ہی ان پر آئین کی دفعہ 6 کی عملداری کرالے گی۔ تاہم اس کشمکش میں اگر مشرف دوبار آئین توڑنے کے جرم کی سزا سے بچ جاتے ہیں تو پھر ہماری نئی سیاسی اور عدالتی تاریخ رقم کرتے ہوئے آئین کی اس دفعہ کو ہی دفن کرنا پڑیگا۔ اسے سپریم کورٹ کے صحن میں دفن کرنا ہے یا پارلیمنٹ ہائوس کے کسی کونے کھدرے میں‘ اس کا فیصلہ تو بہرصورت ہر دو فریقین کو باہم مشاورت سے کرلینا چاہیے۔
پیپلزپارٹی نے تو اپنے پورے دور اقتدار میں مشرف کو گزند تک نہ پہنچنے دینے کا طے کئے رکھا‘ انہیں پروٹوکول دے کر ملک سے باہر بھجوایا اور پھر آصف زرداری صاحب نے صدر مملکت کی حیثیت سے یہ بیان دیا کہ جمہوریت سب سے بڑا انتقام ہے تاہم مسلم لیگ (ن) کے اقتدار میں آنے کے بعد پیپلزپارٹی کے عہدیداروں نے مشرف کیخلاف دفعہ 6 کی کارروائی کا تقاضا شروع کر دیا جبکہ جمہوریت کے علمبردار ہونے کے ناطے ہر دو جماعتوں کی ذمہ داری پارلیمنٹ کے ذریعے آئین کی دفعہ 6 کی عملداری قائم کرانے کی تھی کیونکہ یہ دونوں جماعتیں اپنے اپنے ادوار حکومت میں جرنیلی آمروں کی ڈسی ہوئی ہیں۔ اب مسلم لیگ (ن) کی طرف سے مشرف کے معاملہ میں نرم رویے کا عندیہ مل رہا ہے اور قومی اسمبلی اور سینٹ کے اپوزیشن لیڈران سید خورشیدشاہ اور بیرسٹر اعتزاز احسن سپریم کورٹ کے فیصلے پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے حکومت پر پھبتیاں کستے نظرآرہے ہیں جن کے بقول ’’لگتا ہے کہ مشرف کے باہر جانے پر میاں نوازشریف رضامند ہیں‘‘۔ انہوں نے یہ استفسار بھی کیا ہے کہ وہ وقت کب آئیگا جب طاقتور افراد بھی انصاف کے کٹہرے میں ہونگے۔ یہ سوال یقیناً جمہوریت کی رکھوالی اور آئین و قانون کی حکمرانی کے دعوے داروں کو خود سے بھی کرنا چاہیے‘ قوم تو یقیناً اس دن کی منتظر ہے جب ہر شخص کی قانون و انصاف کی نگاہ میں مساوی حیثیت ہوگی اور ہر کسی کو اپنے کئے کی سزا بھگتنا پڑیگی۔ یہ سطور لکھے جانے تک مشرف کی درخواست پر سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلہ کی کاپی وفاقی وزارت قانون اور وفاقی وزارت داخلہ کے حوالے کی جا چکی تھی اور مشرف کا نام ای سی ایل میں رکھنے یا نکالنے کے بارے میں اعلیٰ سطح کا حکومتی اجلاس بھی جاری تھا اور حتمی فیصلہ وزیراعظم میاں نوازشریف کی جانب سے صادر ہونے کا بتایا جارہا تھا۔ اگر مشرف آئین توڑنے کے کیس میں خصوصی عدالت میں پیش ہوئے بغیر ملک سے باہر چلے جاتے ہیں جس کی وہ مکمل تیاری کئے بیٹھے ہیں تو پھر عوام کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ نظریہ ضرورت پھرزندہ ہو چکا ہے اور ماورائے آئین اقدام والوں کے آگے کسی کو پر مارنے کی جرأت نہیں‘ چاہے وہ اقتدار میں ہوں یا نہ ہوں۔