انٹر نیٹ کی ایجاد نے دنیا بھر کے معاشرتی ڈھانچے کو ایک نئی جہت دی ہے۔ ابلاغی عمل کے اس کلیدی ذریعہ نے دنیا بھر میں فاصلاتی تعلیم کو فروغ دینے میں بھی بڑی معاونت کی ہے۔ پاکستان میں فاصلاتی تعلیم کے حوالے سے دو منفرد یونیورسٹیاں بہت عرصے سے کام کر رہی ہیں۔ایک علامہ اقبال اوپن یورنیورسٹی اسلام آباد اور دوسری ورچوئل یونیورسٹی لاہور ہے۔ مجھے حسن اتفاق سے ان دونوں یونیورسٹیوں میں جزو وقتی طورپر کام کرنے کا موقع ملا۔ ورچوئل یونیورسٹی میں ٹیلی ویژن پروڈکشن،رپورٹنگ اور نیوز ایڈیٹنگ کے کورس پر میں نے پچاس پچاس منٹ کے درجنوں ویڈیو لیکچرز ریکارڈ کروائے۔ یہ لیکچر آج کل ورچوئل ٹی وی چینل سے نشر بھی کئے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ کے الیکٹرانک میڈیا کے کورسز اور سلیبس کا مواد تیار کرنے والی ٹیم کا میں ابتداءہی سے حصہ رہا ۔
بلا شبہ یہ دونوں یونیورسٹیاں فاصلاتی تعلیم کو فروغ دینے میں اپنا اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ دونوں یونیورسٹیوں کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ہر لحاظ سے فاصلاتی تعلیم کے مقاصد کو پورا کرنے میں پوری طر ح کامیاب ہے۔ لیکن ورچوئل یونیورسٹی کو عوام میں ابھی تک وہ پذیرائی نہیںمل سکی جو اس کا خاصہ ہونا چاہئے تھا۔
علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اب تک لاکھوں طالب علموں کو علم کے زیور سے آراستہ کر چکی ہے۔علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ملک کی چوتھی بڑی یونیورسٹی ہے جس کے ملک بھر میں 35سے زائد مقامی کیمپس کا نیٹ ورک ہے۔1974میں قائم کی جانے والی یہ یونیورسٹی سیاچین سے لے کر کراچی اور گوادر تک کے لوگوں کو تعلیمی پروگراموں سے مستفید کر رہی ہے۔ فاصلاتی تعلیم کا سب سے مثبت پہلو یہ ہے کہ اس سے ملک کا غریب اور متوسط طبقہ بغیر کسی امتیاز کے میٹرک، ایف اے،بی اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی تک تعلیم حاصل کر سکتا ہے۔ آج کے دور میں جبکہ یورنیورسٹیوں کی فیسیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور اچھی یونیورسٹی میں داخلہ بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے وہاں اوپن یو نیورسٹی اسلام آباد تحسین کی مستحق ہے کہ وہ آج کے دور میں آسان اور سستی ترین معیاری تعلیم کا موقع عام آدمی کو فراہم کر رہی ہے۔
یونیورسٹی کے موجودہ وائس چانسلر ڈاکٹر شاہد صدیقی ممتاز اہل قلم،دانشور ،مصنف اور کالم نویس ہونے کے ساتھ ساتھ جنون کی حد تک اوپن یونیورسٹی کی رسائی کو ملک کے طول وعرض تک پھیلانے کے لئے ان تھک محنت کر رہے ہیں۔انہوں نے فاصلاتی تعلیم کے طرز ابلاغ کو سہل بنانے کے ساتھ ساتھ مانیٹرنگ اور فیڈ بیک کا مثالی نظام بھی قائم کیا ہے۔ ڈاکٹر شاہد صدیقی قومی اور بین الاقومی سطح پر فاصلاتی تعلیم کے ماہر ہی تصور نہیں کئے جاتے بلکہ انہیں اردو اور انگریزی ادب کے ساتھ ساتھ فنون لطیفہ، فلاسفی اور تقابلی مذاہب کے علوم پر بھی دسترس حاصل ہے۔ گزشتہ ساڑھے تین سال کے دوران انہوں نے اوپن یونیورسٹی میں300سے زائد کانفرنسیں اور سیمنارز منعقد کئے ہیں جو کہ کسی بھی یونیورسٹی کے لیے ایک ریکارڈ تصور کیا جا سکتا ہے۔
علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات کی سربراہی حال ہی میں ممتاز ماہر ابلاغ، دانشور، صحافی اور تجزیہ نگار ڈاکٹر ثاقب ریاض کو سونپی گئی ہے۔ ڈاکٹر ثاقب پوری دلجمعی سے ابلاغیات کے شعبے کو اوج کمال تک پہنچانے کا عزم رکھتے ہیں۔ شعبہ ابلاغیات پہلے صرف فاصلاتی ذریعے سے ہی طالب علموں کو صحافت کی تعلیم دیتا تھا اب اس شعبے میں "ٹیلی ویژن پروڈکشن"کا ایک ریگولر کورس بھی شروع کر دیا گیا ہے۔ پوسٹ گریجویٹ لیول کے اس کورس میں ٹیلی ویژن رپورٹنگ، ایڈٹینگ، انکرینگ، نیوز، حالات حاضرہ اور دستاویزی پروگراموں کی تیاری کے ساتھ ساتھ کیمرے کا استعمال اور سیٹ ڈیزائنگ پڑھائی اور سکھائی جا رہی ہے۔ اس عملی پروگرام کے تحت روزانہ شام کو باقاعدہ کلاسز ہوتی ہیں۔ ٹیلی ویژن پروڈکشن میں خصوصی طور پر ایم ایس سی کی ڈگری جاری کرنے والی یہ پہلی فاصلاتی یونیورسٹی ہے۔ 1986سے قائم شعبہ ابلاغ کے سلیبس کو جدید تقاضوں کے مطابق بنانے کے لیے ایک سلیبس ریویو کمیٹی ہمہ وقت کام میں مصروف رہتی ہے۔مجموعی طور پر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی جس طرح ہر سال لاکھوں طالب علموں کو آرٹس ،سائنس اور پیشہ وارانہ مضامین میں تعلیم دے رہی ہے یقینی اعتبار سے لائق تحسین ہے۔