وہ وقت گئے جب صحافی جمہوریت اور آزادی رائے کی خاطر کوڑے کھاتے تھے۔ مگر کیا کریں اب تو آمریت کے ناسور کی تشخیص بھی تب ہوتی ہے جب جمہوریت کی سانسیں گنی جا چکی ہوتی ہیں۔ اتنا کچھ ہونے کے باوجودجمہوریت کی چیمپئن سیاسی جماعتیں، سول سوسائٹی، وکلاءبرادری، صحافی اور حتیٰ کہ حکومت بھی آئین اور قانون کی بالادستی کے خلاف سازش پر خاموش اور خوفزدہ ہیں۔ خاص کر صحافی جنہوں نے فوجی آمریت کے ہر دور میں سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا، ایک بار پھر ایسے ہی احتجاج کے لئے موقعے کے منتظر ہیں۔
بدقسمتی سے ستر سال کی تاریخ میں فوجی آمروں کی حکومتیں سیاہ و سفید کی مالک رہیں جبکہ سویلین حکومتوں کی ملکیت و اختیار شکوک وشہبات کا شکار رہا۔آج بھی گذشتہ دس سال کی جمہوریت کا جائزہ لیں تو یوں لگتا ہے کہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی حکومتوں پر تو محض اقتدار میں ہونے کا الزام ہی تھا جبکہ ان ادوار میں بھی چور دروازے سے بھی ایسے ایسے کام ہوتے رہے جس پر منتخب وزرائے اعظم بھی بات کرتے ہوئے شرما جاتے تھے۔ صورتحال کچھ ایسی ہی تھی کہ جیسے ہمارے معاشرے میں مرد حضرات کبھی سرعام یہ اقرار نہیں کرتے کہ وہ اپنی گھر والی کے مرید ہیں یہ اور بات ہے کہ پیری مریدی کا جو ازدواجی تعلق کبھی خفیہ رہتا تھا وہ تعلق "تبدیلی" آنے کے بعد تیزی سے فیشن بنتا جا رہا ہے۔ زرداری نواز جمہوریت کا جو عشرہ گزرا ہے وہ بینظیر نواز حکومتوں والے انیس سو نوے کے عشرے سے مختلف نہیں تھا۔ دونوں عشروں میں سیاستدانوں کو اقتدار ملا اور اختیار نہیں۔ انیس سو اٹھاسی میں جنرل اسلم بیگ نے سینے پر تمغہ جمہوریت سجا کر جو کچھ جمہوری نظام کے ساتھ کیا، آج بھی وہی کچھ ہو رہا ہے۔ تمغہ جمہوریت کے وارثوں نے آج بھی بلوچستان اسمبلی اور پھر چیئرمین سینیٹ کے انتخابات میں کچھ مختلف نہیںکیا۔ پہلے زمانے میں قلم کے چند سپاہیوں کو بلا کر پیپلز پارٹی اور بینظیر بھٹو کے خلاف خبریں پلانٹ کی جاتی تھی مگر آج بے دھڑک، پورے اعتماد کے ساتھ بڑے بڑے صحافیوں کو طلب کر کے اپنا مدعا بیان کیا جاتا ہے۔ اس تمام صورتحال میں سیاستدانوں ، وکلاءبرادری اور صحافیوں کا حال ویسا ہی ہے جیسا ہسپتال کے ان مریضوں کا ہوتا ہے جو پرہیز سے زیادہ علاج پر یقین رکھتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے فاضل چیف جسٹس میاںثاقب نثار کی الیکشن سے چند ماہ پہلے حکومت پنجاب کی مجموعی کارکردگی اور پالیسیوں پر کھلم کھلا رائے زنی اور ایسے ہی دوسرے ریمارکس پر پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی خاموشی بھی ایسی ہی بد پرہیزی کی عمدہ مثال ہے۔ حکمران سیاستدان بھی یہ سمجھ رہے ہیں کہ الیکشن کی خاطر ایسی سازشوں پر خاموشی جمہوریت کا "بہترین انتقام " بذریعہ ووٹ ہو گی۔ ایسا انتقام جمہوریت کئی بار پہلے بھی لے چکی ہے مگر اس کا کچھ فائدہ نظر نہیں آ رہا۔ ہمارے معاشرے یا ملکی سیاست میں کوئی تبدیلی آئے یا نہ آئے مگر سیاست کے کچھ معروف مرید اسٹیبلشمنٹ کی سوچ اور طریقہ واردات میں بہت بڑی تبدیلی ضرور لائے ہیں۔ عوام کے مینڈیٹ اور ووٹ کے بیل کو نکیل ڈالنے کے لئے اب وہ حربہ استعمال ہو رہا ہے کہ "سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے"۔ اس نئی سوچ اور طریقے میں تمام فریقین کی جھوٹی ساکھ اور عزت برقرار رہے گی ماسوائے خود عوام کے ووٹ کے ۔
بے اختیار سیاستدانوں کی اقتدار کے محلے میں عزت بنی رہے گی اور انہیں جیل، پھانسی کے پھندوں کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑے گا۔ اسی طرح میڈیا کو بھی سڑکوں پر نکل کر جمہوریت اور آزادی رائے کے لئے احتجاج، نعرے بازی اورکوڑوں کا انتخاب نہیں کرنا پڑے گا۔ ہماری ستر سال سے ہماری قوم ایسی ہی خود فریبی کا شکار ہے۔ اگر آئین اور قانون کی خاطر ہمارے سیاسی حکمران اپنے اقتدار کی قربانی دینے سے گریز نہ کرتے تو آج کسی کو جمہوریت کے خلاف بزدلانہ سازشیں کرنے کی ہمت نہ ہوتی۔ آمریت کا سانپ جب ڈس کے نکل جائے تو بعد میں جمہوریت کے ڈنڈے سے اسکی لکیر پیٹنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ الیکشن سے چند ماہ پہلے سیاستدانوں کے احتساب کے ڈرامے بہت چل چکے۔ آمریت اور اسکے گماشتوں کی پیشقدمی روکنے کے لئے ہر قسم کی آئینی ترامیم ناکام ہو چکی ہیں۔ حکمران جماعت کے آئندہ منشور میں مزید آئینی ترامیم کے ذریعے پارلیمنٹ اور منتخب حکومتوں کو بااختیار بنانے کی کوششیں بھی پہلے کی طرح بے سود ثابت ہوں گی۔ موجودہ صورتحال میں عوام کے مینڈیٹ کے موجودہ محافظ اعظم جناب شاہد خاقان عباسی ایک پریس کانفرنس کے ذریعے عوامی مینڈیٹ کے خلاف جاری سازش کے بارے میں عوام کو کھل کر بتائیں اورپاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکلاءقائدین اپنے کروڑوں روپوں کی فیس والے مقدمات کی خاطر جاری خاموشی کو چھوڑ کراعلیٰ عدلیہ کے سے غیر معمولی سیاسی نوعیت کے ریمارکس و اقدامات پر اپنا اپنا ٹھوس مو¿قف پیش کریں۔ یہی وقت ہے کہ آئین و جمہوریت کی حمایت کے دعویدار سیاستدان، وکلائ، ججز اور صحافی حضرات اپنی نظروں کے سامنے ہونیوالی آئین کے برخلاف سازشوں پر آواز اٹھائیں۔اسکی ایک مثال سپریم کورٹ کے ریٹائر ہونے والے معزز جج جسٹس دوست محمد خان کی ہے، جنہوں نے بقول ذرائع کے محض اس لئے اپنے لئے ہونے والی الوداعی تقریبات میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کیا ہے کہ انہیں ان تقریبات میں اپنی مرضی کی تقریر کرنے کی اجازت نہیں ملی۔ شاید آئین کا آزادی رائے سے متعلق آرٹیکل انیس معزز ججوں کی آزادی رائے کو تحفظ نہیں دیتا۔ اگر اس وقت نظروں کے سامنے ہونے والی سازشوں پر ہم آواز نہیں اٹھائیں گے یا آواز اٹھانے والوں کی آواز کو دبائیں گے تو پھر پانی سر سے گزر جانے کے بعد ہمیں وہ آواز اٹھانے کا کوئی حق نہیں جو مکا جنگ کے بعد یاد آئے اسے اپنے منہ پر مار لینا چاہیے۔