مودی کیخلاف سما ج وادی اور بہوجن سماج پارٹی کا اتحاد

نئی دہلی (بی بی سی) بھارتی وزیراعظم نریندر مودی 2014 میں جب اقتدار میں آئے تو پارلیمنٹ میں ان کے نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کو زبردست اکثریت حاصل ہوئی تھی۔ یہی نہیں خود بی جے پی کو اتنی سیٹیں ملی تھیں کہ وہ اپنے ہی زور پر حکومت تشکیل دینے کی مجاز تھی۔ اپوزیشن ٹوٹ چکا تھا۔ سب سے بڑی جماعت کانگریس کو 50 سے بھی کم سیٹیں ملیں اور وہ پارلیمنٹ میں باضابطہ اپوزیشن پارٹی کا درجہ تک نہ حاصل کر سکی۔ مودی حکومت کے اقتدار کے چار برس بعد اس کی سب سے مضبوط اتحادی تیلگو دیشم پارٹی نے بی جے پی کے اتحاد سے الگ ہونے کا اعلان کیا ہے۔ یہی نہیں اس نے حکومت کے خلاف پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کی تحریک پیش کی ہے جس کی حزب اختلاف کی سبھی جماعتوں نے حمایت کرنے کا اعلان کیا ہے۔ پارلیمنٹ میں بی جے پی کو اب بھی اکثریت حاصل ہے اور اسے اعتماد کی تحریک میں شکست دینا مشکل ہو گا۔ لیکن یہ تحریک اس بات کی غماز ہے کہ مودی حکومت سیاسی طور پر کمزور ہوئی ہے اور اپوزیشن کا منتشر اعتماد واپس آ رہا ہے۔ پچھلے دنوں گورکھپور اور پھول پور کے ضمنی انتخابات بی جے پی کے لیے وارننگ سگنلز ہیں۔ گورکھپور نہ صرف وزیراعلی یوگی آدتیہ ناتھ کا حلقہ ہے بلکہ وہ یہاں سے مسلسل پانچ بار انتخاب جیت چکے ہیں۔ لیکن اس بار بی جے پی کے امیدوار کو یہاں شکست کا سامنا ہوا۔ یہ شکست اس لیے ممکن ہوئی کیونکہ ریاست کی دو سخت حریف جماعتیں سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی ایک ساتھ آ گئیں۔ بی جے پی کے اقتدار میں آنے میں یو پی اور بہار کا سب سے اہم رول تھا۔ لیکن یہ صورتحا ل بدلتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے۔ بہار کی ارریا سیٹ پر لالو پرشاد یادو کی جماعت راشٹریہ جنتا دل کامیاب ہوئی ہے۔ لالو یادو کرپشن کے جرم میں جیل میں ہیں اور پارٹی کی قیادت ان کے بیٹے تیجسوی یادو کے ہاتھ میں ہے۔ ماہرین کا خیال تھا کہ یہ پارٹی اب انتشار کی دہلیز پر ہے اور تیجسوی کی قیادت میں اس کا جلد ہی خاتمہ ہو جائے گا۔

ای پیپر دی نیشن