حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مشہور صحابہ میں سے ایک ہیں۔ یہ اُن خوش قسمت لوگوں میں سے ہیں جنہیں بہت ابتداء ہی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا شرف حاصل ہوالیکن انکے والدحصین ان سے کچھ دیر بعد مشرف بااسلام ہوئے ۔ہوا یوں کہ قریش کاایک وفد ان کے پاس آیاسارے قریش ان کا بڑا ادب واحترام کیا کرتے تھے انھوں نے حصین سے کہا :اس شخص نے (حضور علیہ السلام ) ہمیں بہت تنگ کر رکھا ہے ہمارے بتوں کی عیب جوئی کرتا رہتا ہے۔ہر لحظہ انہیں برا بھلاکہتاہے تم عقل مند اور زیرک آدمی ہو،انہیں جاکر سمجھائو کہ باز آجائیں۔چنانچہ حصین اپنی قوم کے ایک وفد کو لے کر حضور کے کاشانہ اقدس پر پہنچا ، دوسرے لوگ باہر ٹھہرے رہے اور حصین خود اند ر چلا گیا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اسے دیکھا تواہل مجلس کو فرمایااپنے سردار کے لیے جگہ کشادہ کرو،عمران بن حصین پہلے سے وہاں موجود تھے ۔ حصین نے کہامجھے آپکے بارے میں بتایا گیا ہے کہ آپ ہمارے خدائوں کو برابھلا کہتے ہیں اوران کی مذمت کرتے ہیں کیا یہ درست ہے۔حضور نے ارشادفرمایا: اے حصین ! تم کتنے خدائوں کی عبادت کرتے ہو،اس نے کہا ہم سات خدائوں کی عبادت کرتے ہیں، جو زمین میں ہیں اور ایک خدا کی جو آسمان میں ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا :اگر تمہیں کوئی ضرر اور تکلیف پہنچے تو کس خدا کو پکارتے ہو۔اس نے کہا :اس خدا کو جو آسمان میں ہے ،پھر پوچھا اگر مال مویشی ہلاک ہو جائے تو پھر کس کو پوچھتے ہو،اس نے کہا آسمان والے ایک خدا کو ۔ آپ نے ارشادفرمایا بڑے افسوس کی بات ہے کہ تمہاری دعائیں تو ایک آسمانی خدا قبول کرتا ہے لیکن جب عبادت کا وقت آتا ہے تو تم زمین کے خودساختہ بے فیض خدائوں کی پوجا کرنے لگتے ہو،کیا تم اس شرک کو پسند کرتے ہو۔
اے حصین! اسلام قبول کرلو،تاکہ تم عذابِ الہی سے بچ سکو۔حضور کی نگاہِ کرم سے حصین کی آنکھوں سے پردے اُٹھ گئے اُس نے اسی وقت اسلام قبول کرلیا۔ اس کا بیٹا عمران خوشی سے پھولا نہیں سمارہا تھا وہ بڑی وارفتگی سے اُٹھا اپنے باپ کے سر کو چوما اور اس کے ہاتھوں اورپائوں کو بوسہ دیا ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھا آپ کی آنکھوںسے آنسو بہنے لگے ،آپ نے فرمایا : ’’میں تو عمران کے طرز عمل سے متاثر ہوکر اشک بار ہوا ہوں۔ حصین جب یہاں آئے تو عمران بیٹھا رہا ،جب یہ مسلمان ہوگئے عمران بے ساختہ دوڑ کر اپنے باپ کے پاس پہنچا اور بڑی محبت کا اظہار کیا‘‘۔حصین واپس جانے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو حکم دیا کہ حصین کو اُنکے گھر تک پہنچاکرآئیں۔ جب انھوں نے دہلیز سے قدم باہر رکھا تو انکے چہرے پر مسرت اور نور کا عالم دیکھ کر گئے قبیلے والے کہ یہ کفر سے رشتہ توڑ چکے ہیں ۔(السیرۃ الحلبیہ)