اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ہم سب نے مل کر کرونا وائرس کے خلاف جنگ لڑنی اور جہاد کرنا ہے اور ہم یہ جنگ جیتیں گے۔ عوام کو گھبرانے کی ضرورت نہیں۔کوئی بھی حکومت اکیلی کرونا سے نہیں لڑ سکتی۔ ہم سب کو مل کر اس کے خلاف لڑنا ہوگا۔ عوام خصوصاً بیرون ملک سے آنے والے پاکستانی احتیاط کریں۔ چین میں پھنسے پاکستانیوں کی مشکلات کا اندازہ ہے۔ کرونا ایران سے پاکستان میں پھیلا۔ یہ ایک زکام ہے جس کے 97 فیصد کیسز صحت مند ہو جاتے ہیں۔ ذخیرہ اندوزوں سے ریاست کوئی رعایت نہیں برتے گی۔ آپ نے اس سے گھبرانا نہیں۔ ہم مسلمان ہیں اور ہمارا ایمان ہے کہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اب تک ہم نو لاکھ افراد کو سکرین کر چکے ہیں ۔ سکریننگ کا عمل ہم نے 15 فروری سے شروع کیا جب کہ ملک میں کرونا کا پہلا کیس 26 فروری کو سامنے آیا۔ کرونا وائرس کے حوالے سے حکومت کی جانب سے کئے گئے اقدامات پر قوم کو اعتماد میں لیتے ہوئے منگل کو قوم سے اپنے خطاب میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ آج قوم سے میرے خطاب کا مقصد قوم کو اعتماد میں لینا ہے۔ کرونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لئے عوام احتیاط کریں۔ ہماری حکومت نے اس سے نمٹنے کے لئے کئی اہم اقدامات کئے ہیں۔ کرونا کے معاملے پر افراتفری پھیلانے کی ضرورت نہیں۔ کرونا اتنا زیادہ خطرناک نہیں جتنا اس بارے میں افراتفری پھیلائی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 100 میں سے جو تین فیصد زیادہ متاثر ہوتے ہیں ان میں بھی معمر اور کمزور مدافعتی نظام والے لوگ شامل ہیں یا جن کو پہلے سے ہی سینے کا انفیکشن ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کرونا ایک زکام ہے تاہم اس میں خطرناک بات یہ ہے کہ یہ تیزی سے پھیلتا ہے۔ عمران خان نے کہا کہ جب ہمیں پتا چلا تو ہم نے 15 فروری کو فوری ایکشن کا اعلان کیا۔ جب ہم نے دیکھا کہ 20 مریض ہو گئے ہیں تو اس وقت ہم نے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلایا۔ عمران خان نے بتایا کہ کرونا وائرس سب سے پہلے ہمارے پڑوسی ملک چین میں پھیلااس کے بعد ایران کے شہر قم میں پھیلا تاہم وہاں پاکستانی زائرین کی بڑی ایران میں گئی ہوئی تھی اس وجہ سے وہ متاثر ہوئے۔ وائرس سے نمٹنے کے انتظامات پر پاک فوج اور حکومت بلوچستان کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے قرنطینہ سمیت دیگر انتظامات کئے۔ انہوں نے کہا کہ جب کرونا پھیلا تو ہمارا ردعمل کیا تھا یہ سمجھنا قوم کے لئے ضروری ہے کیونکہ ہر طرف مختلف باتیں ہو رہی تھیں تاہم ہم نے اس کے لئے جامع اقدامات اٹھائے اور ائیر پورٹس سمیت مختلف مقامات پر سکریننگ کا عمل شروع کیا۔ ہم نے دیکھا کہ اٹلی نے اقدامات کے طور پر اپنے ملک کو لاک ڈائون کر دیا۔ برطانیہ نے مختلف حکمت عملی اپنائی۔ امریکہ نے پہلے کچھ نہیں کیا اور بعد میں شہر کے شہر بند کر دیئے۔ تاہم پاکستان کے حالات امریکہ اور یورپ والے نہیں وہاں وسائل کی کمی نہیں جب کہ پاکستان پسماندہ ملک ہے جس کے 25 فیصد لوگ تو انتہائی پسماندہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں اب تک ایک لاکھ نوے ہزار افراد متاثر ہوئے ہیں۔ چین میںکرونا پھیلنے کے بعد ہمیں معلوم ہو گیا کہ یہ پاکستان میں بھی پھیلے گا۔ ہم نے اس سے نمٹنے کے لئے اقدامات کیے۔ انہوں نے کہا کہ اقتصادی رابطہ کمیٹی روزانہ کی بنیاد پر متاثرہ شعبوں پر نظر رکھے گی۔ عمران خان نے کرونا وائرس سے بچنے کا نسخہ بتاتے ہوئے کہا کہ اس کے لئے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ہونگی۔ چین کی حکومت اور عوام نے مل کر اس وباء کے خلاف جنگ لڑی اس لئے ہم نے بھی بطور قوم ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کے خلاف جنگ لڑنی ہے۔ عمران خان نے کہا کہ جہاں وائرس پھیلتا ہے وہاں نہیں جانا چاہیے یہ زیادہ تر ہاتھ ملانے سے پھیلتا ہے جب کہ کوئی کسی سے ہاتھ ملاتا ہے اور وہ پھر اپنے چہرے پر ہاتھ لگاتا ہے تو اس سے کرونا پھیلنے کا خطرہ ہوتا ہے اس لئے اس سے بچنے کے لئے ہمیں صفائی رکھنا ہوگی ۔ حضور اکرم ؐ نے بھی فرمایا کہ صفائی نصف ایمان ہے۔ حضور ؐ نے فرمایا کہ احتیاط برتو، اس لئے ہمیں حضور اکرم کی سیرت طیبہ پر عمل کرنا چاہیے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہر کھانسی کا مطلب یہ نہیں کہ اس شخص کو کرونا ہو گیا ہے بلکہ آپ پہلے اس کی علامات دیکھیں پھر کوئی اقدام اٹھائیں ہر کوئی ٹیسٹ کرانے مت جائے۔ عمران خان نے کہا کہ میں ڈاکٹروں ، پیرا میڈیکل سٹاف اور نرسوں سمیت ہسپتالوں کے تمام سٹاف سے کہتا ہوں کہ وہ بہادری سے اپنے فرائض انجام دیں اور ہم نے مل کر ہی کرونا وائرس کے خلاف جہاد کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خوشخبری کی بات یہ ہے کہ چین نے تقریباً کرونا وائرس پر مکمل قابو پا لیا ہے۔ دنیا میں کرونا کے کیسز اوپر جا رہے ہیں تاہم چین میں نیچے آرہے ہیں ۔ بحیثیت قوم ہمیں ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا ہوگا۔ علاوہ ازیں آئی این پی کے مطابق امریکی خبر ایجنسی کو انٹرویو میں وزیراعظم عمران خان نے کرونا وائرس کے باعث خراب صورتحال کے پیشِ نظر عالمی مالیاتی اداروں سے پاکستان سمیت غریب ممالک کے قرضے معاف کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے قرضے معاف ہونے سے کرونا وائرس سے نمٹنے میں مدد ملے گی لہٰذا عالمی برادری غریب ممالک کے قرضے معاف کرے۔ طالبان کے حوالے سے افغان صدر کا بیان مایوس کن تھا، افغان امن عمل کے لیے پاکستان کی کوششوں کی تعریف کی جانی چاہیے۔وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں کرونا وائرس زیادہ پھیلا تو اس سے نمٹنے کی صلاحیت اور وسائل نہیں ہیں۔ کرونا اگر پاکستان میں پھیلا تو معیشت بحال کرنے کی ہماری کوشش کو سنگین نقصان پہنچے گا، ہمارے پاس طبی سہولتیں اتنے بڑے بحران سے نمٹنے کے لیے ناکافی ہیں، آئی ایم ایف کا قرضہ پاکستان کے لیے معاشی بوجھ بن جائے گا عمران خان کا کہنا تھا کہ میری پریشانی غربت اور بھوک ہے۔کرونا وائرس دنیا کے ترقی پزیر ممالک کی معیشتوں کو تباہ کرسکتا ہے، ترقی یافتہ ممالک غریب ممالک کے قرضے معاف کرنے کے لیے تیار رہیں، وائرس سے پیدا بحران سے ترقی پذیر ممالک میں بھوک اور غربت پھیلنے کا ڈر ہے، عالمی برادری کو پاکستان جیسے ممالک کے لیے قرضوں کی معافی کی کوئی صورت نکالنے کا سوچنا ہوگا۔وزیراعظم نے ایران پر سے بھی امریکی پابندیاں اٹھانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ پابندیاں اٹھانے سے ایران کو کرونا وائرس سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔ پاکستان کی معیشت کو بچانے کی کوشش کررہے ہیں، اگرکرونا کی صورتحال سنگین ہوئی تو کمزور معیشت کو بچانے میں ناکام ہوجائیں گے۔ وائرس سے پاکستان، بھارت اور افریقی ممالک کو یکساں بحران کا سامنا ہوگا، پاکستان کے پاس کسی بڑے بحران سے نمٹنے کے لیے علاج کی سہولیات ہیں نہ وسائل۔