محمداکرم چودھری
کین کمشنر پنجاب کے اعدادوشمار کے مطابق ملک میں رواں کرشنگ سیزن کے دوران 56لاکھ ٹن کے لگ بھگ چینی کی پیداوار ریکارڈ کی گئی ہے اور توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ کرشنگ سیزن کے اختتام پر چینی کی مجموعی پیداوار 57لاکھ ٹن کے لگ بھگ رہے گی تاہم شوگر ملز ایسوسی ایشن کے ذرائع کے مطابق اس سال ملک میں چینی کی پیداوار 55لاکھ ٹن کے لگ بھگ رہے گی۔ شوگر ملز ایسوسی ایشن کی سالانہ رپورٹ 2020کے مطابق 2019-20 میں چینی کا پیداواری حجم 48.19 لاکھ ٹن رہا۔ کین کمشنر پنجاب کے اعدادوشمار کے مطابق پنجاب میں شوگر ملوں نے اس کرشنگ سیزن میں 37لاکھ ٹن کے لگ بھگ چینی تیار کی ہے جبکہ 38ہزار ٹن کیری اوور سٹاک ہے جس سے چینی کی کل مقدار 37.38لاکھ ٹن ہے۔ گزشتہ سال پنجاب میں چینی کا پیداواری حجم 30.5لاکھ ٹن تھا جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 6.5 لاکھ ٹن زائد ہے۔ دریں اثنا حکومتی ذرائع نے کہا ہے کہ اس سال سندھ میں 15.25لاکھ ٹن اور خیبر پی کے میں 3.15لاکھ ٹن سے 3.25لاکھ ٹن چینی پیدا ہوئی ہے۔ حکومتی ذرائع نے کہا کہ سندھ میں چینی پر جی ایس ٹی بچانے کے لئے 3لاکھ ٹن سے 5لاکھ ٹن کے قریب چینی آف دی بک رکھی گئی ہے۔ اگر اس چینی کو بھی مجموعی پیداوار میں شامل کیا جائے تو ملک میں چینی کی پیداوار 60 لاکھ ٹن سے زائد بنتی ہے۔ حکومتی ذرائع نے بتایا کہ ابھی بھی بعض شوگر ملوں کے ذمے کسانوں کے 15ارب روپے کے واجبات ہیں۔ اگر حکومت ان ملوں کی 15ارب روپے کی چینی مارکیٹ میں لے آئے تو مارکیٹ میں نہ صرف چینی کی رسد پوری ہو جائے گی بلکہ اس کی قیمت بھی مستحکم رہے گی۔ دریں اثنا شوگر ڈیلرز نے رابطہ کرنے پر تصدیق کی کہ سندھ میں آئوٹ آف بکس چینی بنی۔ اس کا اصل مقصد چینی پر 17فیصد جی ایس ٹی بچانا ہے۔ سندھ کی شوگر ملوں نے پنجاب سے گنا اس لئے خریدا کیونکہ ان کو اس میں بھی منافع تھا۔ اس سال رمضان میں چینی کی قلت نہیں ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ شوگر ملیں چینی کی کرنٹ سیل نہیں کرتی ہیں بلکہ چینی کے فارورڈ سودے کرتی ہیں۔ قانون کے مطابق شوگر ملیں اگلے 15دن کے سودے کر سکتی ہیں لیکن شوگر مل مالکان نے مئی اور جون کے سودے بھی کر لئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک میں چینی وافر مقدار میں موجود ہے۔ اکتوبر اور نومبر میں فرق پڑ سکتا ہے۔ حکومت کو 3لاکھ ٹن تک چینی درآمد کرنی چاہئے۔ جولائی میں چینی درآمد کرنی چاہئے۔ انٹرنیشنل مارکیٹ میں چینی کی قیمت کم ہو گی۔