سینیٹ کے لئے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کے ساتھ ہی ملک میں ہنگامہ خیز سیاسی دور کا خاتمہ ہوگیا۔ حکومتی اتحاد نے اپوزیشن اتحاد کو شکست دے کر چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کی دونوںسیٹیں جیت لیں ۔ صادق سنجرانی نے 48 ووٹ حاصل کئے جب کہ یوسف رضاگیلانی 42 ووٹ حاصل کر پائے، ڈپٹی چیئرمین کے لئے مرزا آفریدی کو 54 اورپی ڈی ایم امید وار مولانا عبد الغفور حیدر ی کو 44 ووٹ ملے۔ صدر عارف علوی ، وزیراعظم عمران خان اور سپیکر قومی اسمبلی سیمت تمام حکومتی زعماء نے کامیابی پر چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور ڈپٹی چیئرمین مرزا آفریدی کو مبارک باد دی۔ سید یوسف رضاگیلانی نے آٹھ ووٹ مسترد ہونے پر کہا ہے کہ جس قسم کے کیمرے پکڑے گئے ہیں آرٹیکل 226 کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ لیگل ٹیم کو ٹاسک سونپ دیا گیا کہ کیس تیار کرے ۔ پی ڈی ایم اتحاد کا کہنا ہے کہ حصول انصاف کے لئے نتائج کے خلاف ہر فورم پر جائیں گے ۔
سینیٹ انتخابات کا حالیہ معرکہ ملک کی سیاسی تاریخ میں واقعتا غیر معمولی اہمیت کا حامل رہا۔ ان انتخابات میں ذرائع ابلاغ پر خبروں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ پوری شد ومد سے جاری رہا۔ انفارمیشن کی اس چکا چوند نے ملک کی سیاسی قوتوں کے لئے سخت آزمائش کی صورت حال پیدا کئے رکھی۔ سینیٹ انتخابات کا دوسرا پہلو سیاسی جماعتوں کا طرز عمل رہا جس سے ثابت کیا کہ تمام تر بہتری کے باوجود ملک کی سیاسی برادری کو اپنی ترجیحات اور سرگرمیاں مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ سید یوسف رضا گیلانی کی کامیابی پر اپوزیشن نے خوب شور مچایا اور کہا کہ جمہوریت اور عوام کی جیت کا دور آ رہا ہے ۔جب وزیر اعظم نے پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ لیا تو اپوزیشن کا بیانیہ بدل گیا۔ جمعہ کے روز چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کی کامیابی پر حکومتی حلقے جشن مناتے ہوئے جمہوریت کی فتح قرار دے رہے تھے جب کہ اپوزیشن نے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا کسی ایک فریق سے سینیٹ انتخابات کے کسی ایک مرحلے پر بھی غلطی تسلیم کرنے، حقائق کو ماننے اور جمہوری روایات کی پاس داری پر توجہ نہیں دی۔ اس رویے کی عجیب شکل یہ رہی کہ مختلف اوقات میں حکومت اور اپوزیشن اپنے مفاد اور مرضی کے لئے سینیٹ الیکشن میں خفیہ رائے دہی کی حمایت اور مخالفت کرتی رہی ہیں ۔بلاشبہ حکومتی اتحاد کامیاب ہوگیا اس کامیابی پر حکومتی اتحاد جشن ضرور منائے مگر یہ سلسلہ انتہا تک نہیں جانا چاہیے ۔ حالات کا تقاضا یہ ہے کہ حکومت کو جو کامیابی ملی ہے اس سے بڑی کامیابی عوام کا اعتماد حاصل کرنا ہے کہ حکومت کامیاب ہوگئی تو آئندہ انتخابات میں سرخرو ہو سکے گی بصورت دیگر یہ خوشی وقتی ثابت ہو سکتی ہے۔ پی ڈی ایم رہنمائوں کو بھی چاہئیے کہ حالات کا ادراک کریں جس طرح حکومتی اتحاد میں چھپے دشمن موجود ہیں اسی طرح پی ڈی ایم میں بھی ایسے عناصر موجود ہیں جو درِ پردہ ایک دوسرے کے ماضی میں کیے گئے حملوں کا بدلہ لے رہے ہیں ۔ یہ سیاسی عناصر پی ڈی ایم میں شامل ہی اس لئے ہیں کہ اس سیاسی چھت کے سوا ان کا کوئی ٹھکانہ نہیں ، سیاست میں یہ رِیت ہمارے ہاں مفاد پرستوں کا وطیرہ بن چکی ہے انہی فصلی بیٹروں کی وجہ سے ملک میں حقیقی جمہوریت پروان نہیں چڑھ سکی ۔ اسی ایوان بالا میں سید یوسف رضا گیلانی کی فتح اور اسی میں شکست سے بہت سے سوال کھڑے ہو گئے ہیں ۔ یہ ایسے نتائج ہیں جن پر حکومتی اتحاد اور پی ڈیم ایم اتحاد کو ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیے اور ہر رکن پارلیمنٹ کو گریبان میں منہہ ڈال کر سوچنا چاہیے کہ کیا وہ سیاست کے میدان میں قومی مفاد میں کام کر رہا ہے یا ذاتی مفادات سمیٹ رہا ہے ۔ ان انتخابی نتائج میں عوام کے لئے بھی سبق ہے کہ وہ غور کریں کہ جن لوگوں کو منتخب کر کے وہ پارلیمنٹ میں بھیجتے ہیں کیا وہ وہاں بیٹھ کر ان کے مفادات کے تحفظ کے لئے کام کرتے ہیں یا اپنے مفاد کی حفاظت کے لئے ۔ عوام کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ مملکت خدا داد کے حقیقی وارث وہی ہیں اور انہی نے ارضِ پاک کی حفاظت کی ذمہ داری ادا کرنی ہے ۔ سیاست اسی صورت عبادت کہلاتی ہے جب وہ عوام کے حقوق کے تحفظ کے لئے کی جائے ایسا نہیں ہوتا تو سمجھ لیں کہ عوام کو دھوکہ دیا جا رہا ہے، اس دھوکہ سے ہمارا مستقبل تباہ ہو رہا ہے اور بظاہر جو لوگ ایوان میں دست وگریبان ہیں ان کا مستقبل سنور رہا ہے اس لئے کہ کہیں نہ کہیں ان کے مفادات ضرور مشترکہ ہوتے ہیں۔ عوام کو سمجھنا ہوگا کہ سب سیاست دان سیاست عوام کے نام پر کرتے ہیں مگر انہی عوام کے مفادات کا تحفظ کہیں نہیں ہو رہا ۔ عوام آج بھی مہنگائی اور بے روز گاری کی دلدل میں پھنسے جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھنے کے لئے بھاگ دوڑ کر رہے ہیں ، اس امید میں کہ شائد ان کا کل سنور جائے ۔ ایسا ہو سکتا ہے مگر اس کے لئے عوام کو اپنا سیاسی قبلہ درست کرنا ہوگا اگر عوام کے مسائل حل نہیں ہو رہے تو بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایوان زیریں اور ایوان بالا میں عوام کا کوئی ایسا حقیقی نمائندہ ہی نہیں جو عوام میں سے ہو ، جس کے بچے عوام کے بچوں کی طرح ٹاٹ والے سکولوں میں پڑھتے ہوں ، جسے سبزیوں ،پھلوں اور غذائی اجناس کے نرخ معلوم ہوں، اس نے کبھی بس یا ویگن میں سفر کرتے ہوئے مسائل کا سامنا کیا ہو ۔ یہ معاشرے کا اشرافیہ ہے جو مختلف پارٹیوں میں ہوتے ہوئے خود کو اقتدار کا حق دار سمجھتا ہے اور ہر دفعہ انتخابات میں عوام کو بے وقوف بنا کر ایوانوں میں پہنچ جاتا ہے اور عوام ان کامنہ تکتے رہ جاتے ہیں۔ عوام کے حقیقی نمائندے وہ ہوتے ہیں جن کے دروازے عوام کے لئے کھلے رہتے ہیں مگر ہمارے سیاسی نمائندے ایسے ہیں جن کے دروازے عوام کے لئے ہمیشہ بند رہتے ہیں۔ یہ لوگ ملک اور قوم کا قیمتی وقت اور پیسہ ضائع کر رہے ہیں ان میں سے اکثریت ایسی ہے جنہیں ملک اور قوم کے بجائے اپنی کرسی کی فکر لاحق رہتی ہے ایک طرف کہا جاتا ہے کہ معیشت کمزور ہے ، خزانہ خالی ہے دوسری طرف عیش وعشرت کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے ۔ عوام کے خون پیسنے کے پیسے سے قومی خزانہ بھرتا ہے مگر عوام بھوکے مر رہے ہیں۔ یہ سلسلہ تب تک ایسے ہی رہے گا جب تک عوام کا ضمیر بیدار نہیں ہوتا اور وہ محض بریانی کھا کر اور ہمدردی کے دو بول سن کر ووٹ کاسٹ کرنے سے باز نہیں آتے ۔ووٹ قوم کی امانت ہے اس امانت کو ضائع مت کریں آزمائے ہوئوں کو باربار نہ آزمائیں ، لٹیروں اور چوروں سے بچ کر رہیں تاکہ ہمارا مستقبل سنور سکے ۔ عوام یاد رکھیں کوئی حکمران اس سوال کا جواب نہیں دے سکتا کہ سینیٹ انتخابات کے لئے تین ماہ تک جو سیاسی ہنگامہ برپا رہا اس میں عوام کا کوئی مفاد وابستہ ہے ۔ سینیٹ انتخابات نے ثابت کردیا کہ ایک ایسا طبقہ موجود ہے کہ حالات جو بھی ہوں وہ جس کو چاہے اور جب چاہے ہرا سکتا ہے اور جسے چاہے جتوا سکتا ہے ۔ آج سیاست اسی کا نام ہے جو دراصل عوام کے مفادات پر ضرب کاری ہے جس پر عوام کو اس انداز میں مثبت رد عمل ظاہر کرنا چاہیے کہ آئندہ انتخابات میں ووٹ ضمیر کی آواز پر دینے کا عہد کریں اور جیتنے کے لئے سرمایہ کاری کرنے والوں پر نظر رکھیں جو کروڑوں روپے خرچ کر کے اربوں اور کھربوں کماتے ہیں ، جن کی جھلکیاں ہم دیکھ چکے ہیں ۔ ان مفاد پرستوں کے بیانات اور دعوئوں سے تو عوام کے لئے ہمدردی ٹپکتی ہے مگر ان کا حقیقی کردار عوام کے مستقبل کو تاریک بنا رہا ہے جب تک عوام اس پر غور نہیں کریں گے ملک میں جمہوریت اور عوام کے حقوق کے نام پر اسی طرح ہنگامہ برپا رہے گا مگر عوام کے مسائل حل ہونا محض خواب رہے گا۔
نیرنگیٔ سیاست دوراں تو دیکھئے
Mar 18, 2021