انصاف میں تاخیرکیوں؟

ماتحت اور اعلیٰ عدلیہ کو ازخود یہ جائزہ لینا چاہیئے کہ آخر عوام ہمارے نظامِ عدل وانصاف سے کیوں مایوس ہو رہے ہیں اور انتقام در انتقام کی قبائلی اور جاہلانہ روایات دوبارہ کیوں فروغ پارہی ہیں۔ماتحت عدالتوں اور ہائی کورٹس میں یہ بھی دیکھنے میں آیاکہ کبھی کسی فریق کا وکیل دوسری عدالت میں ہوتا ہے۔ اگر سب فریق موجود ہوں توبھی سماعت کی باری نہیں آتی جس کی  وجہ سے سائلان کو مزید مالی ودیگر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار کے مترادف ہے ۔ 
معزز جج صاحبان اور وکلاء یقینا چاہتے ہیں کہ انصاف کا نظام بہتر اور تیز ہوجائے۔ہر حکومت کے ایجنڈے میںجلد انصاف کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے ۔ یہ بات موجودہ حکومت کی ترجیحات میں بھی شامل ہے لیکن ظاہر ہے کہ یہ مقاصد محض نعروں اوروعظ کی بجائے عملی اقدامات چاہتے ہیں۔ بدقسمتی یہ رہی ہے کہ سیاستدانوں اور حکمرانوں نے عدلیہ کے عمدہ فیصلوں کو بھی اکثر سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا۔ فیصلہ اگر ان کے حق ہو تو دستور اور قانون کے مطابق اگر خلاف ہو تو اسے انصاف کا خون کہا گیا۔
بار کو بھی پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی میںہر قسم کے دبائو اورمخاصمت سے آزادی ملنی چاہیئے تاکہ  انہیں اپنے موکلوں کے علاوہ عام شہریوں کے آئینی و قانونی حقوق کے تحفظ کے لیے بھر پور کردار ادا کرنے میں کسی قسم کی دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے تاہم اُن پر بھی یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ فوری اور سستے انصاف کی فراہمی کے لیے عدلیہ سے بھر پور تعاون کریں۔ اُن کی وجہ سے انصاف میں تاخیر کا الزام نہیں آنا چاہیئے ۔یہ کتنا بڑا انسانی المیہ ہے کہ مبینہ قاتل کی بریت کے فیصلے تک ’’ قاتل‘‘ جیل میں ہی فوت ہو چُکا،ایسا بھی ہو ا کہ ’’ قاتل ‘‘ اپنی سزائے موت کے خلاف رحم کی اپیل کی منظوری سے کئی سال قبل راہی ملک عدم ہو چُکا ہوتا ہے۔
انصاف میں تاخیر کے مسئلے کا حل محض یہ نہیںکہ سینکڑوں نئی عدالتیں بنا کر ہزاروں جج تعینات کر دیئے جائیں، اس لئے بھی کہ قومی معیشت اتنے بوجھ کی متحمل نہیں ہوسکتی چنانچہ اس کمی کو پورا کرنے کے لئے عدلیہ کو عوام کی بلند توقعات پر پورا اترنے کے لئے غیر معمولی کار کردگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اس ضمن میں حکومت ججوں کی خالی اسامیاں پر کرنے کے علاوہ اُنہیں وہ تمام سہولتیں اور مراعات فراہم کرے جوایک آزاد ، خود مختار اورفعال عدلیہ کے لیے بہت ضروری ہیں ۔اسی طرح جب تک معاشرے کی مجموعی سوچ نہیں بدلی جائے گی مقدمے بازی کے رجحان کا ماتم فضول ہے۔ یہاں تواعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ معمولی جھگڑوں کو لے کر عدالتوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ جب تک لوگوں کے دلوں میں صبر، برداشت اور معاف کرنے کی اسلامی اقدار راسخ نہیں کی جائیں گی مقدمے بازی کے ناسور سے جان نہیں چھوٹے گی۔اس ضِمن میں پولیس کی روش اور کردار کو بدلنا بھی بہت ضروری ہے۔معمولی جھگڑوںپر کسی ایک فریق کے اثر میں آکر شیر خوار بچے پر بھی سنگین جرائم والی دفعات لگا کر عدالتوں کے کام کو بڑھا دیتی ہے۔
نظامِ انصاف کو نقصان پہنچانے والا اہم عمل تھانہ کی سطح سے ہی شروع ہو جاتا ہے ۔نیم خواندہ محرر/منشی نے ٹوٹی پھوٹی زبان میں جو لکھ دیا اور اپنے فہم کے مطابق جو دفعات لگا دیں اُنہیں مقدس تحریر کا درجہ حاصل ہوجاتا ہے۔اس ناقص پریکٹس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ با اثر فریق ایف آئی آر میں مرضی کی دفعات شامل کرا لیتا ہے۔ ایسی ایسی مضحکہ خیز خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں کہ کھیت سے گنا چرانے کے الزام میں شیر خوار بچے پر دہشت گردی کی دفعات لگادی گئیں۔
مقدمات کے فیصلوںمیں تاخیر میں کمی صرف اسی صورت ہو سکتی ہے کہ وکلائ، پراسیکیوٹراور سبھی فریق مقدمے کے فیصلے کے لئے مقرر کی جانے والی تاریخ کی آخری حد تک پابندی کریں۔ جج صاحبان فکر اور لگن کے حامل ہوں۔ تیز رفتاری اور مستعدی عدالت کاہدف ہوناچاہیئے۔ میں نے سپریم کورٹ میں محرم علی بنا م وفاقِ پاکستان کے مشہور مقدمے میں اس معاملے پرانہی خیالات کا اظہار کیا تھا۔ مقدمات کے جمع ہونے اور تاخیر کی وجوہات کو مختلف اسباب اور عوامل سے جوڑا جاسکتا ہے ۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجک نہیں کہ نظامِ انصاف آبادی میں اضافے ااور اس کے نتیجے میں بڑھنے والی مقدمہ بازی کے ساتھ رفتار قائم نہیں رکھ سکا۔مقدمہ بازی میں اضافے کا تعلق ذہنی پسماندگی اور عوام کے اندر اپنے حقوق اور مفادات کے بارے میں شعور اور آگاہی کے فقدان سے بھی ہے ۔
عدلیہ کا مجموعی رویہ اور ہدف یہ ہے کہ انصاف کا نظام بہتر اور تیز ہوجائے۔ میں پھر اس نکتے پر زور دینا چاہوں گاکہ مقدمات میں عشروں اور نسلوں بعد انصاف ملنا انصاف نہیںناانصافی ہے۔ نظامِ انصاف میں بہتری لانے کا کام حکومت اور پارلیمنٹ کا ہے وہ اس طرح کہ بہت غورو خوص کے بعد قانون سازی ہونی چاہیئے۔قانون میں ایسی ترامیم نہیں ہونی چاہئیںجو آسانیاں فراہم کرنے کی بجائے مسائل پیدا کریں لہٰذاقانون سازی سوچ سمجھ کر ہونی چاہیئے  جلد بازی سے بہتری نہیںخرابی آتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں قانون کو اپ ڈیٹ کرنے اور ترامیم کے لئے کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں۔ پاکستان میں لاء اینڈ جسٹس کمشن نے کئی قوانین میں ترامیم کی سفارش کی ہے۔حکومتوں کو چاہیئے کہ اُن ترامیم کے تمام پہلوئوں کا جائزہ لے کران پر عمل کریں۔ بار کونسلوں کو بھی نظامِ انصاف میں بہتری کے حوالے سے صوبائی حکومتوں ، وفاقی حکومت اور لاء اینڈ جسٹس کمیشن کو مشورے اور تجاویز بھیجتے رہنا چاہیئے۔ 
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن