مولاناحافظ فضل الرحیم اشرفی
’’حضرت عائشہؓسے روایت ہے کہ میں نے ایک رات رسول اللہؐ کو گھر میں نہ پایا،پس میں آپؐ کو تلاش کرتے ہوئے نکلی تو آپ کو بقیع (مدینہ کے قبرستان) میں پایا آپ نے فرمایا اے عائشہؓ !کیا تجھے اس بات کا ڈر تھا کہ اللہ اور اس کا رسول ؐ تجھ پر زیادتی کرے گا؟ عرض کیا یارسول اللہؐ میںنے خیال کیا شاید آپ ازواج مطہرات میں سے کسی کے ہاں تشریف لے گئے ہوں تو آپ نے فرمایا بے شک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب میں آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے پس قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعدادسے زیادہ دوزخی لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے۔‘‘ (رواہ الترمذی وابن ماجہ)
شب برات کی مزید حقیقت اس روایت سے بھی معلوم ہوتی ہے جو بیہقی میں حضرت عائشہ ؓ سے منقول ہے کہ آپؐ نے فرمایا کیا تمہیں معلوم ہے کہ شعبان کی اس پندرہویں شب میں کیا ہوتا ہے؟ عرض کیا فرمائیے کیا ہوتا ہے، آپ نے فرمایا اس رات میں یہ ہوتا ہے کہ اس سال جتنے پیدا ہونے والے ہیں وہ سب لکھ دیئے جاتے ہیں اورجتنے مرنے والے ہیں وہ بھی سب لکھ دئیے جاتے ہیں اور اس رات میں سب بندوں کے اعمال اٹھائے جاتے ہیں اور اسی رات میں لوگوں کی مقررہ روزی اتر تی ہے۔‘‘
حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی ؒ اس حدیث کے شروع میں فرماتے ہیں کہ اعمال اٹھائے جانے کا یہ مطلب ہے کہ اعمال دربار خداوندی میں پیش کیے جاتے ہیں اور روزی اترنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک سال میں جتنی روزی انسان کو ملنی ہے وہ سب لکھ دی جاتی ہے۔
حضرت علی ؓ فرماتے ہیںرسول اللہ ؐنے ارشادفرمایا۔’’جب شعبان کی پندرہویں شب آئے۔ تو رات کو قیام کرو(یعنی نمازیں پڑھو) اور دن(پندرہویں تاریخ) کو روزہ رکھو۔‘‘
اس حدیث سے شعبان کی پندرہویں تاریخ کو روزہ رکھنے کا حکم معلوم ہوا یہ روزہ رکھنا مستحب ہے اگر کوئی رکھے توثواب ہے نہ رکھے تو گناہ نہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اس رات کان لگا کر غور سے سنا تو آپ ؐیہ دعا فرمارہے تھے۔
’’اے اللہ میں تیرے عفو کی پناہ چاہتا ہوں تیری سزاسے اور تیری رضا کی پناہ چاہتا ہوں تیرے غصہ سے اور پناہ چاہتا ہوں تیری سختیوں سے اے اللہ میں آپ کی تعریف کا شمار نہیں کرسکتا۔ آپ کی ذات ایسی ہی بلندوبالا ہے جیسے آپ نے خود فرمایا۔‘‘ (رواہ البیہقی)
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے دریافت کیا یارسول اللہ ؐ آپ رات کو یہ دعا پڑھ رہے تھے تو آپ نے فرمایا۔ ہاں تم بھی یہ کلمات یاد کرلو اور دوسروں کو بھی بتادو۔ یہ کلمات جبرئیل ؑ نے مجھے بتائے ہیں۔ بیہقی میں آپ ؐ سے سجدہ میں یہ دعا مانگنا بھی ثابت ہے۔
’’سجدہ کیا تجھے میرے ظاہر وباطن نے اور میں سچے دل سے تجھ پر ایمان لایا پس میرا یہ ہاتھ اور جو کچھ میں نے اس سے اپنی جان پر گناہ کیے ہیں اے عظمت وبزرگی والے ان بے شمار گناہوں کو معاف فرمادے۔ سجدہ کیا میں نے اس ذات اقدس کو جس نے پیدا فرمایا اور اس کی صورت بنائی کان اور آنکھیں دیں۔‘‘
اس کے علاوہ یہ دعا بھی آپ ؐ سے اس رات میں مانگنا ثابت ہے۔
’’اے اللہ مجھے ایسا پاکیزہ دل عطا فرما جس میں شرک کا شائبہ بھی نہ ہو اور نہ بدکار ہو اور نہ بدبخت ہو۔‘‘
اے رب العزت ہمیں اس رات کی برکتوں سے مستفیض فرما اور ہمارا نام بھی ان لوگوں میں شامل فرمادے جن کی مغفرت کا فیصلہ اس رات میں ہوتا ہے۔ اور آنے والے سال میں جو زندگی دے وہ خیروبرکت اور نیکی کے ساتھ ہو اور موت لکھی جاچکی ہے تو اے رب ذوالجلال ایمان پر خاتمہ نصیب فرما۔آمین