اپنی سیاسی کمیٹی کے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان بالآخر آئین کی دفعہ 54‘ شق تین کے تحت عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کیلئے قومی اسمبلی کا اجلاس 21 مارچ کو طلب کرنے پر آمادہ ہو گئے ہیں۔ اس آئینی دفعہ کے تقاضے کے تحت کسی اہم ایشو پر اسمبلی کا اجلاس بلانے کی دی گئی ریکوزیشن کی بنیاد پر ریکوزیشن موصول ہونے کے بعد 14 دن کے اندر اندر سپیکر کو ہرصورت اجلاس بلانا ہوتا ہے چنانچہ اپوزیشن کے ایک چوتھائی سے زیادہ ارکان اسمبلی کے دستخطوں کے ساتھ 8 مارچ کو وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کیلئے اجلاس بلانے کی دی گئی ریکوزیشن پر اسمبلی کا اجلاس 14 دن اندر اندر بلانے کی آئینی میعاد 21 مارچ کو پوری ہونی ہے۔ حکومتی اکابرین تو عدم اعتماد کی تحریک پر اودھم مچاتے اور ریاستی اداروں کو رگڑے دیتے ہوئے اسمبلی کا اجلاس منعقد نہ ہونے دینے کے راستے نکالنے کی کوشش کرتے رہے ہیں اور ایسا ماحول پیدا کرنے کی بھی کوشش کی جاتی رہی کہ اجلاس والے دن کوئی رکن قومی اسمبلی بالخصوص سرکاری بنچوں کے ارکان ہائوس کے اندر پہنچ ہی نہ سکیں۔ وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز اپنے سوات کے جلسہ میں بھی اسی گیم پلان کے تحت لوگوں کو قومی اسمبلی کے اجلاس سے پہلے اسلام آباد پہنچے کی ترغیب دی تاکہ حکمران پی ٹی آئی کی حکمت عملی کے تحت پارلیمنٹ ہائوس کے باہر دس لاکھ افراد کا مجمع لگ جائے اور وہ ارکان اسمبلی کا ہائوس کے اندر داخل ہونا ناممکن بنا دے۔ اسی طرح حکمران پی ٹی آئی کے ممکنہ منحرف ارکان کو عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ سے پہلے ہی آئین کی دفعہ 63۔اے کی ’’ڈیفیکشن‘‘ والی شق کے اپنی من مرضی کے معانی نکال کر نااہل قرار دینے اور انہیں ووٹنگ میں حصہ لینے سے روکنے کیلئے سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے کوئی جگاڑ لگانے کی کوشش کی گئی۔ ان دونوں حکمت عملیوں پر ابھی تک پی ٹی آئی کی صفوں میں مشاورت کا سلسلہ جاری ہے اور زورزبردستی کے راستے نکالنے کی کوششیں ہو رہی ہیں تاہم وزیراعظم عمران خان نے پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی کے اجلاس میں آئین سے انحراف پر ممکنہ کارروائی کے حوالے سے دی گئی بریفنگ پر بالآخر 21 مارچ کو اسمبلی کا اجلاس بلانے کا اپنے قانونی مشیروں کا مشورہ قبول کرلیا۔ اب دیکھیں ارکان اسمبلی کو اجلاس میں شریک نہ ہونے دینے کی اختیار کی گئی پی ٹی آئی کی سیاسی حکمت عملی پر اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے کیونکہ یہ حکمت عملی تو سراسر خون خرابے کی نوبت لانے والی ہے جس پر دو روز قبل کی کورکمانڈرز کانفرنس میں بھی سنجیدگی سے غور کیا جاچکا ہے۔
وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کی نوبت کیوں آئی۔ اس بارے میں ان صفحات پر بہت بحث مباحثہ ہو چکا ہے۔ آج میں ان سطور میں پارلیمنٹیرین حضرات کے ذہنوں میں موجود اس سوچ اور رویے پر بات کرنا چاہتا ہوں جو انہیں آئین سے انحراف یا آئین سے ہٹ کر اپنی سہولت کا کوئی راستہ نکالنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اس حوالے سے آج مجھے مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر میاں شہبازشریف کے ایک ٹی وی چینل کو دیئے گئے انٹرویو میں انکی یہ تجویز پڑھ کر حیرت سے زیادہ افسوس ہوا کہ وزیراعظم عمران خان کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک منظور ہونے کے بعد پانچ سال کیلئے قومی حکومت تشکیل دے دی جائے۔ یہی میاں شہبازشریف اور اپوزیشن کے دوسرے قائدین عدم اعتماد کی تحریک کے حوالے سے حکمران پی ٹی آئی کی ماورائے آئین اقدامات والی سوچ کے اب تک لتے لے رہے ہیں اور حکومتی اکابرین کو آئین کی دفعہ 95 کی متعلقہ شقوں اور اسی طرح آئین کی دفعہ 54 شق تین کی پاسداری نہ کرنے کا موردالزام ٹھہرا رہے ہیں۔ مگر آج ذرا جائزہ لے لیجئے کہ خود مسلم لیگ (ن) کے عہد اقتدار میں آئین کی پاسداری کہاں تک ملحوظ خاطر رکھی جاتی رہی ہے۔
پچھلے دنوں سابق سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کیلئے اسمبلی کا اجلاس بلانے سے متعلق سپیکر کی آئینی ذمہ داریوں کا تذکرہ کرتے ہوئے انکے محض پوسٹ آفس والے کردار کو فوکس کرتے رہے اور اس آئینی کردار کی حقیقت بھی یہی ہے کہ سپیکر کو وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد کی قرارداد موصول ہونے کے بعد آئین کی دفعہ (1)95 شق 2 کے تحت سات دن کے اندر اندر اسمبلی کا اجلاس بلانا ہوتا ہے جبکہ اجلاس بلانے کی کسی ریکوزیشن پر آئین کی دفعہ 54 شق تین کے تحت انہیں 14 دن کے اندر اندر ہر صورت اجلاس بلانا ہوتا ہے۔ ان دونوں صورتوں میں اجلاس بلانے میں تاخیر سیدھی سیدھی آئین سے انحراف کے کھاتے میں جائیگی۔ یہی سمجھ اب حکومتی اکابرین کو آئی ہے تو 21 مارچ کو اسمبلی کا اجلاس بلانا انکی مجبوری بنا ہے مگر خود سردار ایاز صادق صاحب بطور سپیکر قومی اسمبلی ایک دوسرے معاملہ میں اپنے ’’پوسٹ آفس‘‘ والے کردار کا کیا حشر کرتے رہے۔ اگر اس وقت وہ اپنے اسی آئینی کردار کی پاسداری کرلیتے تو آئین سے انحراف کیلئے آج جو منظرنامہ بنتا نظر آرہا ہے‘ شاید اسکی نوبت ہی نہ آتی۔
تاریخ کے طالب علموں کو سردار ایاز صادق کے 2014ء والے کردار کو ذہنوں سے ہرگز محو نہیں ہونے دینا چاہیے کیونکہ انکے اس کردار نے آئین کی دفعہ 64 کو عملاً غیرمؤثر بنا دیا تھا۔ یہ وہ دن ہیں جب پی ٹی آئی اور عوامی تحریک مسلم لیگ (ن) کی حکومت کیخلاف پارلیمنٹ کے باہر ڈی چوک میں دھرنا دیئے بیٹھی تھی اور روزانہ حکومت گرنے کے منظر بنائے جارہے تھے۔ اسی یقین کے غالب ہونے پر ایک دن پی ٹی آئی کے ارکان پارلیمنٹ نے آئین کی دفعہ 64 کے تحت اپنے استعفے لکھ کر قومی اسمبلی سکرٹیریٹ میں جمع کرادیئے۔ بعدازاں یہی کام ایم کیو ایم متحدہ کے ارکان نے بھی کیا۔ آئین کی دفعہ 64 کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ کسی رکن اسمبلی کے ہاتھ سے لکھا ہوا اس کا استعفیٰ جیسے ہی سپیکر کی ٹیبل پر آتا ہے‘ وہ ازخود منظور ہوجاتا ہے اور سپیکر کو اسکی نشست خالی قرار دیکر الیکشن کمیشن کو اس خالی نشست کے نئے انتخاب کا شیڈول دینے کا کہنا ہوتا ہے۔ آئین کے تقاضے کے تحت سپیکر کا یہ کردار محض پوسٹ آفس والا ہے جس میں اس نے موصولہ ’’ڈاک‘‘ اگلی کارروائی کیلئے متعلقہ ادارے تک پہنچانا ہوتی ہے مگر سردار ایاز صادق ان موصولہ استعفوں پر سانپ بن کر بیٹھ گئے اور پھر آئین کے تقاضوں کے برعکس رولنگ دیکر خود ہی یہ استعفے مسترد کردیئے۔ اس وقت استعفے منظور ہونے سے یہی ہوتا کہ قومی اسمبلی کا ہائوس آدھا خالی ہو جاتا اور پھر نئے سرے سے عام انتخابات کرانا پڑتے مگر سردار ایاز صادق نے اپنے پارٹی قائد میاں نوازشریف کو نئے انتخابات کی صورت میں لاحق ہونیوالے کسی خوف کے باعث اسکی نوبت ہی نہ آنے دی۔
بھئی! اب موجودہ سپیکر قومی اسمبلی اپنے پوسٹ آفس والے کردار کے برعکس اجلاس کو ٹالنے کیلئے کوئی جگاڑ لگانے کا سوچ رہے ہیں جس کیلئے انہوں نے اپنے حلقۂ احباب سے مشاورت بھی کی ہے تو ایسا راستہ تو انہیں سردار ایاز صادق نے ہی اپنے ماضی والے کردار کی بنیاد پر سجھایا ہے۔ اب میاں شہبازشریف آئین میں موجود وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام کے برعکس پانچ سال کی مدت والی کسی قومی حکومت کی تشکیل تجویز کررہے ہیں تو پھر دس دس سال والی ماورائے آئین جرنیلی آمریتوں میں بھی کیا خرابی ہے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں نے تو آئین کی دفعات 52‘ اور 107 کے تحت اپنی اپنی پانچ سال کی میعاد پوری کرنی ہے اور آئین کی دفعہ 90 اور اسکی ذیلی دفعات کے ماتحت حکومتوں کی تشکیل ہونی ہے۔ پھر یہ پانچ سال کی مدت والی قومی حکومت کا تصور کہاں سے آگیا۔ اگر حکومتی اور اپوزیشن بنچوں پر بیٹھے ہمارے پارلیمنٹیرین حضرات کا آئین کی پاسداری کا یہی معیار ہے تو پھر چرخہ جلا کر جتن سے پکائی کھیر کا وہی حشر ہوگا جو ماضی میں ہوتا آیا ہے۔ کیا بہتر نہیں کہ آئین و قانون وضع کرنے کا اختیار رکھنے والے پارلیمنٹیرین حضرات کو آئین پڑھانے والی کلاس میں بٹھا دیا جائے تاکہ ان میں تول کر بولنے کی عادت تو پڑ سکے۔