قیام پاکستان سے آج تک کی تاریخ کھنگال جایئے، اس کا ایک ایک ورق آپ کو اس امر کی شہادت دیتا محسوس ہو گا کہ ؎
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
پاکستان کے وجود میں آنے سے لمحہ موجود تک شاید ہی کوئی دن ایسا اہل پاکستان کو میسر آیا ہو کہ انہیں سکون و اطمینان نصیب ہوا ہو ورنہ ہماری ایک مستقل روایت چلی آ رہی ہے کہ ہمہ وقت ہنگامہ برپا رہتا ہے، جواز موجود ہو یا نہ ہو ہم بہرحال اس بات کے عادی ہو چکے ہیں کہ ؎
ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق
نغمۂ شادی نہ سہی نوحۂ غم ہی سہی
ہمارے اہل سیاست نے آج کل بھی ’تحریک عدم اعتماد‘ کے نام پر خوب رونق لگا رکھی ہے، حکومت اور حزب اختلاف کے مابین گھمسان کا رن پڑا ہے، دوستوں اور دشمنوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے، جن میں خوب خوب عیاری اور غضب کی مکاری کا مظاہرہ دیکھنے میں آ رہا ہے، کوئی اصول ہے، قانون نہ قاعدہ، بس مفادات کا کھیل عروج پر ہے، گھوڑوں کی منڈی سجی ہے، بڑھ چڑھ کر قیمتیں لگائی اور لگوائی جا رہی ہیں۔ جمہوریت کے نام پر تمام غیر جمہوری ہتھکنڈوں کی آزمائش ہو رہی ہے، ہمارے یہاں مغربی طرز کا جو جمہوری نظام رائج ہے اس کے بارے میں شاعر مشرق، مصور پاکستان علامہ اقبالؒ نے فرمایا تھا کہ: ؎
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے
اطلاعات مگر یہ ہیں کہ علامہ مرحوم کے فرمان کے قطعی برعکس ہمارے چنیدہ بندوں کو گنتی سے قبل محض تولا ہی نہیں، نوٹوں میں تولا جا رہا ہے اور بولیاں کروڑوں میں لگ رہی ہیں مگر یہ گھوڑے ہیں کہ ترازو کے کسی ایک پلڑے میں ٹکنے پر آمادہ ہی نہیں، پھدک پھدک کر مینڈکوں کی طرح کبھی ایک پلڑے میں اور کبھی دوسرے پلڑے میں سواری ہے، کوئی کھل کر یہ بتانے پر تیار ہی نہیں کہ وہ کس جانب کھڑا ہے، تاحال یہ فیصلہ کرنا دشوار ہو رہا ہے کہ کس فریق کا پلڑا بھاری ہے، نتیجتاً عوام پر ہیجانی کیفیت طاری ہے…!!!
’’تحریک عدم اعتماد‘‘ پاکستان میں رائج مغربی جمہوری نظام کا حصہ ہے۔ جس کے ذریعے یہ طے کیا جاتا ہے کہ برسراقتدار حکمران کو منتخب قومی اسمبلی کے ارکان کی اکثریت حاصل ہے یا وہ اپنی کارکردگی، پالیسیوں یا کسی بھی دوسرے سبب اس سے محروم ہو چکا ہے۔ چنانچہ جمہوری اقدار و روایات کا تقاضا ہے کہ ’’تحریک عدم اعتماد‘‘ سے جمہوری انداز ہی میں نمٹا جائے اور یہ عمل پر امن اور خوشگوار ماحول میں تکمیل کو پہنچے، فریقین جمہوری روح کے مطابق اس کے نتائج تسلیم کر کے جمہوریت کے استحکام و ترقی میں اپنا اپنا کردار مثبت انداز میں ادا کریں تاکہ ملک میں جمہوریت پھل پھول سکے، مستحکم ہو اور فروغ پائے اور عوام اس کے ثمرات سے مستفید ہو سکیں مگر ہمارے سیاسی قائدین کا رویہ اس کے برعکس قطعی منفی اور غیر جمہوری ہے جس میں تحمل، برداشت، رواداری اور برد باری نام کو نہیں، پہلے سے جاری الزام تراشی، دشنام طرازی اور ذاتی کردار کشی کے رویوں میں ’’تحریک عدم اعتماد‘‘ پیش کئے جانے کے بعد مزید تیزی اور تندی آ چکی ہے، بدقسمتی سے حکومت ہو یا حزب اختلاف، دونوں میں سے کوئی بھی اپنی بہتر تربیت اور اخلاقی برتری کا ثبوت فراہم نہیں کر سکا بلکہ دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی۔ جن سیاسی رہنمائوں پر اپنے کارکنوں کی عمدہ تربیت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے ، وہ خود اب تک سیاسی بلوغت، شائستگی اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے سے قاصر رہے ہیں، سیاسی اختلافات یقینا جمہوریت کا حسن ہیں اور قابل اعتراض نہیں مگر انداز گفتگو تو شریفانہ چاہئے‘‘… غیر اخلاقی زبان کے استعمال اور ناپسندیدہ القابات سے ایک دوسرے کو نوازنے کے بعد دونوں جانب سے قومی اسمبلی کے ایوان کے اندر کی لڑائی کو سڑکوں، چوکوں اور چوراہوں میں لڑنے کے اعلانات کئے جا رہے ہیں، پہلے وزیر اعظم اور حکمران جماعت کی جانب سے 27 مارچ کو ڈی چوک اسلام آباد میں ’’عظیم الشان اجتماع‘‘ کا اعلان کیا گیا جس کے بعد حزب اختلاف نے بھی25 مارچ کے موقع پر ملک بھر سے کارکنوں کو وفاقی دارالحکومت کی جانب مارچ شروع کرنے اور 24 مارچ کو ہر صورت اسلام آباد پہنچنے کی ہدایت کر دی ہے۔ 23 مارچ کو ایک جانب ہر سال روایتی پریڈ ہوتی ہے جس میں دوسرے ممالک کے سفیر اور مہمان بھی مشاہدہ کے لیے مدعو ہوتے ہیں جب کہ برسوں بعد بائیس اور تیئس مارچ کو مسلمان ممالک کے وزرائے خارجہ کا اہم اجلاس بھی اسلام آباد ہی میں منعقد ہو رہا ہے۔ ایسے موقع پر حکومت اور حزب اختلاف طاقت کے مظاہرے اور کارکنوں کوسڑکوں پر آمنے سامنے لانے کے اعلانات کی کوئی ذی شعور شخص حمایت اور تائید نہیں کر سکتا اس سے جہاں دنیا بھر میں ملک و قوم کی بدنامی اور جگ ہنسائی کا سامان ہو گا وہیں کسی بھی مرحلہ پر مشتعل اور پر جوش کارکنوں کے مابین کوئی معمولی سا تصادم حالات کے بگاڑ کا سبب بھی بنے گا اور ہمارے سیاسی قائدین کا یہ غیر جمہوری اور غیر ذمہ دارانہ طرز عمل غیر جمہوری قوتوں کو مداخلت اور جمہوری نظام کی بساط لپیٹ دینے کا جواز بھی فراہم کر سکتا ہے جس کی تمام تر ذمہ داری بہرحال اہل سیاست ہی پر عائد ہو گی اس لیے ہم اپنے محترم سیاسی رہنمائوں سے گزارش کریں گے کہ خدارا۔ ہوش کے ناخن لیں اور ملک کو کسی نئے بحران کا شکار ہونے سے بچائیں…!!!