خانی زمان کا تعلق ہزارے سے ہے اور وہ ا پنی گدھا گاڑی پر مختلف گھروں سے کوڑا کرکٹ اکٹھا کر کے ’’گاربیج پوائنٹ‘‘تک پہنچانے کا کام کرتے ہیں،خانی زمان کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ ان کے پاس گدھا گاڑی کے بجائے ان کا اپنا’’شہزور‘‘ٹرک ہو لیکن مہنگائی اور غربت نے باور کرا دیا کہ یہ سہاناخواب کبھی پورا نہیں ہو سکتا تو انہوں نے گدھا گاڑی پر ہی جلی حروف میں ’’ خانی زمان شہزور‘‘لکھوا دیا۔ یہ ’’ٹرک‘‘ جہاں چلتا ہے وہاں کبھی میں بھی رہا کرتا تھا، اسی علاقے میںپشاور کے رہنے والے وطن خان بھی اپنی سائیکل پر جھاڑو بیچنے کا کام کرتے ہیں۔ان جیسا محنتی،کھرااور ہنس مکھ انسان آجکل ملتا ہی کہاں ہے،اسی لیے وہ جب بھی دکھائی دیتے ہیں اُنہیں روک لیتا ہوں،اور ایک آدھ جھاڑوبھی ضرور خریدلیتا ہوں لیکن اس کے لئے بڑی جدوجہد کرنی پڑتی ہے کیونکہ یہ بات وہ بھی سمجھتے ہیں کہ میں جھاڑو پر جھاڑوکیوں خریدرہا ہوں؟ایک مرتبہ تو انہیں رخصت کرنے سے پہلے جب میں نے جھاڑو مانگا توبضد ہوگئے کہ اگر پیسے دو گے تو جھاڑو نہیں دوں گا، مفت لینا ہے تو لے لو۔میںنے زبردستی جھاڑو بھی لے لیا اور ان کی جیب میں پیسے بھی ڈال دیے لیکن وہ اپنی سائیکل پر’’فرار‘‘ ہوتے ہوئے یہ کہہ کر پیسے واپس میری طرف پھینک گئے کہ’’وطن خان کا جھاڑو فالتو تو نہیں ہے‘‘اور میں اِس بے ساختہ اور دوررس اظہار پرپہلے حیران ہوا اور پھر بے اختیار مسکرانے لگا۔
قومی مسائل پر وطن خان کا اپنا ایک خاص’’ نکتہ نظر‘‘ہوتا ہے،مثال کے طور پر لوڈ شیڈنگ کے عروج پر کہہ رہے تھے کہ انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔میں نے پوچھا کہ گرمی نہیں لگتی؟وہ مسکراتے ہوئے بولے کہ گرمی لگتی ہے تو درخت کی چھائوں میں بیٹھ جاتا ہوں۔میں نے کہا کہ رات کو تو پریشانی ہوتی ہو گی،اتنی گرمی میں پنکھے کے بغیرنیند کیسے آتی ہے؟وہ پھر مسکرا کربولے کہ ’’صرف ہمارا ہی پنکھا تو بند نہیںہے پورے پاکستان کا پنکھا بند ہے،سب گزارا کر رہا ہے تو ہم کیوں نہیں کرے گا‘‘؟میں نے کہا کہ آپ کو گرمی سے فرق پڑے یا نہ پڑے لیکن مجھے تو پڑتا ہے چلیں کسی ٹھنڈی جگہ چل کر پسینہ بھی خشک کرتے ہیں اور پیاس بھی بجھاتے ہیں؟وہ بولے کہ’’ یار ہمیں تو اس پسینے کا عادت ہے اگر یہ خشک ہو گیا تو دیہاڑ خراب ہوجائے گا،ہم ٹنڈا ونڈا نہیں پیے گا، اجازت دو؟‘‘میں نے کہا کہ آپ سے سیاسی صورتحال پر بات کرنی ہے تاکہ کالم لکھ سکوں؟میری اس بات پروہ ذرا شرما کر بولے کہ یار ہم سے کیوں مذاق کرتا ہے؟میں نے کہاکہ بڑے افسوس کی بات ہے،میں آپ کومذاق کرنیوالا آدمی دکھائی دیتا ہوں،کیا آپ کو یاد نہیں جب آپ کے صوبے کا نام تبدیل ہو رہا تھاتو میں نے اس پر بھی آپ اور خانی زمان کے ساتھ بات کی تھی اور کالم بھی لکھا تھا، یہ مذاق والی بات آپ نے اُس وقت بھی کی تھی؟ اچھاٹھیک ہے آپ بے شک نہ آنا،میں نے حسبِ معمول جھوٹ موٹ کی ناراضگی سے کہا، اور وہ ہمیشہ کی طرح سچ مچ شرمندہ ہو کر ملاقات پہ راضی ہو گئے۔
شام کو وہ دونوں میرے پاس تھے،میں نے پوچھا کہ کیسا جا رہا ہے نیا پاکستان؟وطن خان بولے کہ’’ یار اسرار صاحب آپ کو پہلے بھی بتایا تھا کہ ہمارا عمر ساٹھ سال سے زیادہ ہو گیا ہے،ہمارازندگی میں بہت بار حکومت بدلا لیکن ہر بارہمارا حالات بہتر ہونے کے بجائے اور بھی خراب ہوا‘‘۔میں نے کہا کہ میں نے بھی تو بتایا تھا کہ جس طرح آپ کو لوڈ شیڈنگ سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ آپ کو تو بس جھاڑو ہی بیچنے ہوتے ہیں،اسی طرح حکمرانوںکو بھی اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وطن خان کے حالات بدلے یا نہیں،انہیں تو لوٹ مار ہی کرنی ہوتی ہے؟
خانی زمان بولے کہ سرپچھلی باربھی آپ سے پوچھا تھا کہ ہماری حکومتیں یہ سیدھی سی بات کیوں نہیں سمجھتیں کہ لُوٹنے کے لیے ہی سہی لیکن دھرتی ماں کو سلامت تو رہنے دیں،اگر ملک کو کچھ ہو گیا تو وہ لُوٹیں گے کسے ؟ میں نے کہا کہ ہاں پوچھا تھاجس پر مجھے یوں لگا تھا جیسے کسی نے دل میں خنجر اتار دیا ہو،آپ ہی نہیں وطن خان نے بھی تو پوچھا تھا کہ ’’ یار اسرار صاحب یہ سیدھا سا بات جو خانی زمان اور مجھکو بھی سمجھ آتا ہے ہمارا حکمرانوں کو کیوں سمجھ نہیں آتا جواتنا اچھا اچھا سکولوں میں پڑھا ہوا ہے،اتنا اچھا انگریزی بولتا ہے؟‘‘آپ کو اپنا سوال تو یاد ہے مگر میرا جواب یاد نہیں،میں نے کہا تھا کہ سمجھ ضرور آتی ہے لیکن اس پر عمل اس لیے نہیں کرتے کہ اس سے پاکستان ترقی کر سکتا ہے اور پاکستانیوں کو عقل آ سکتی ہے جس سے مفاد پرست حکمرانوں کو فائدہ نہیں نقصان ہوگا۔ خانی زمان مسکراتے ہوئے بولے کہ سر آپ کا جواب کیسے بھول سکتا ہوں،آپ کے جواب پر ہی تو وطن خان نے کہا تھا کہ ’’یاراگرہمارا بس چلے تو اپنے جھاڑو سے اپنے وطن کو سب مفادپرست حکمرانوں سے ایک دم پاک کر دے‘‘۔اور میں بھی بے اختیار مسکرانے لگا کیونکہ وطن خان کی اس خواہش پرمیں نے شرارت بھرے انداز میں کہا تھا :’’لیکن وطن خان کا جھاڑو فالتوتو نہیں ہے‘‘؟اور وطن خان بھی زور زور سے ہنسنے لگے تھے۔
میں نے کہا کہ اچھا چھوڑوباقی باتیں اور یہ بتائو کہ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کامیاب ہونے یا نہ ہونے سے فرق کیاپڑے گا؟وطن خان زور زور سے ہنستے ہوئے بولے کہ’’ وہی جو ہمارا صوبہ کا نام بدلنے سے پڑا تھا‘‘۔ تو مجھے یاد آیا کہ اُس موقع پر انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں اس بات سے کیا فرق پڑتا ہے کہ صوبے کا نام کیا ہے،اگر اس کا نام جنت بھی ہو لیکن لوگوں کو روزگار نہ ملے تو کیا فائدہ،ہم تو کہتا ہے کہ اس کا نام دوزخ رکھ دو لیکن لوگوں کے مسئلے حل کرو؟میں قہقہہ لگائے بغیر نہ رہ سکا، میں نے ان سے کہا کہ آپ ٹھیک کہتے ہیں، ہمیں عدم اعتماد سے کیا؟ تو آپ لوگ اپنی اپنی گدھا گاڑی اور سائیکل چلائیں، میں کالم لکھتا ہوں۔ اور قارئین مسکرائیں اور قہقہے لگائیں۔