سوشل میڈیا کی موجودگی میں تنہائی کے چرچے

بحیثیت انسان یہ ہمارے لیے ضروری ہے کہ سماجی لحاظ سے ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت اور خوش آتعلقات مستحکم کرنے کو ترجیح دیں تاہم ایسا کرنا دشوار ترین ہوتا جا رہا ہے۔ کیوں کہ ہم نے اپنے نفوس کو مستطیل موبائل سکرینوں کی حد تک محدود کر لیا ہے۔یہی وہ تباہ کن میکنزم ہے جس کی بدولت انسانیت غیر مستحکم اور غیر یقینی راستے پر ہے۔ بلاشبہ سوشل میڈیا نے فاصلوں کو سمیٹ کر رکھ دیا ہے۔ایک کلک پر اپنے پیاروں کو روبرو لے آتا ہے مگر اعتدال سے زیادہ سوشل میڈیا کا استعمال صارفین کی صحت و نفسیات پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ جدید تحقیق سے ثابت ہے کہ بلاوجہ کمپیوٹر،موبائل یا ٹیبلٹ وغیرہ پر وقت گزارنا آپ کو ذہنی طور پر اکیلا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ مزید طبی ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ جم کر ایک جگہ بیٹھے رہنے کی وجہ سے پیدا ہونے والی تنہائی کے بھی کم و بیش وہی منفی اثرات ہیں جو ہم سگریٹ نوشی کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک میں تنہائی وبائی امراض کی مانند پھیل رہی ہے اور یہ صورت حال لوگوں کے لیے الارمنگ ہونی چاہیئے۔تنہائی اپنی ذات میں مثبت اور منفی دونوں پہلو سموئے ہوئے ہے۔ تنہائیوں میں رب کائنات کے ساتھ رازونیاز کی باتیں ہوتی ہیں۔تنہائی میں عقل کی گتھیوں کو سلجھایا جاتا ہے مگر دین رحمت نے ایسی رہبانیت کو ممنوع قرار دیا ہے جس میں معاشرتی زندگی اور معاشرتی بہبود کی سوچ کے زاویے متاثر ہوں۔ قارئین عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ کچھ لوگ ماڈرن ازم کی آڑ میں اپنے اردگرد تنہائی کا خود ساختہ ماسک چڑھا لیتے ہیں۔حالانکہ سماجی روابط، ہنسی مذاق اور بات چیت زندگی کا ایک لازمی جزو ہے۔ سوشل میڈیا ایک مصنوعی دنیا ہے جہاں پر لوگوں کی اصل شخصیت ہی مبہم رہتی ہے۔ اس لیے تصوراتی اور غیر حقیقی دنیا میں کثیر وقت ضائع کرکے جب آپ اپنی حقیقی دنیا میں واپس آتے ہیں تو آپ کا دماغ خود کو تنہا محسوس کرنے لگتا ہے۔قارئین اب آپ سوچ رہے ہونگے کہ سوشل میڈیا انٹرٹینمنٹ کا ایک سمندر ہے جو بور نہیں ہونے دیتا ایسے میں تنہائی کیسی۔ میرے نزدیک اس کا حد سے زیادہ استعمال احساسِ کمتری کے ساتھ ساتھ احساسِ برتری بھی پیدا کرتا ہے۔ احساسِ برتری سے اسکا یہ گمان ہوتا ہے کہ اسے کسی کی ضرورت نہیں۔خود پسندی وخود آگہی کے وہم میں مبتلا ہو جانے کے باعث وہ لوگوں کے اجتماع میں جانے سے گھبراتا ہے، صرف چند سوشل میڈیا افراد کے ساتھ ہم کلامی رہتی ہے اور ان سے بھی بمشکل مسائل شیئر کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتا ہے نتیجتاً وہ تنہائی کے ایک دائرے میں مقید ہوکر رہ جاتا ہے۔ اس لیے سوشل میڈیا پر سینکڑوں غائبانہ دوستوں کی بجائے حقیقی زندگی کے دوست احباب کے ساتھ روابط آپ کو تنہا نہیں ہونے دیتے۔مشاہدے میں ہے وہ لوگ جو دوستوں اور گھر والوں کے ساتھ رُو برُو وقت گزارتے ہیں، کلاسز لیتے ہیں، مذہبی معاملات میں رضاکار بنتے ہیں یا شرکت کرتے ہیں ان کے دماغ صحت مند ہوتے ہیں۔
سوشل میڈیا کی سب سے بڑی تباہی تو یہ ہوئی کہ اس نے خاندانی تعلقات کو براہِ راست منقطع کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ فیملی لائف کی خوشیاں کہیں کھو کر رہ گئیں۔ ایک ہی گھر کے افراد ایک ہی کمرے میں بیٹھ کر آپس میں باتیں کرنے کی بجائے اپنے موبائل میں مصروف رہتے ہیں۔ آج کل سوشل میڈیا کے ذریعے کسی کی وفات پر تعزیت کی جاتی ہے بجائے اس کے کہ اس کے ہاں جا کر تھپکی سے اس کی ڈھارس بندھائی جائے۔ شادی بیاہ کے دعوت نامے، مبارکبادیں یہیں سے موصول کی جاتی ہیں۔ افسوس سماجی میل جول نہ ہونے سے تنہائی کا عفریت بے قابو ہو رہا ہے۔اس پر قابو پانے کے لیے آپ کو صرف'' سوشل'' ہونا پڑے گا۔ تنہائی کو دور کرنے کے لیے سماجیات کی ایک لڑی سے جڑنا ہوگا۔ سوشل ورک کرنے ہونگے۔ البتہ سوشل میڈیا پر آپ یہ کام نہیں کر سکتے۔ مثلاً چند درخت لگانا،ماحول کو صاف رکھنے کے لیے علاقے میں کام کرنا،کسی بچے کی تعلیمی ذمہ داری اٹھانا،کسی بچے کے لیے کتابیں،یونیفارم خریدنا،کسی کے لیے نئے کپڑے خریدنا،مستحقین کے لیے ادویات خریدنا،کسی بیوہ کے لیے سلائی مشین خریدنا،سکولوں یا کالجوں میں بلا معاوضہ لیکچر دینا،کینسر کے مریضوں کے ساتھ چند گھنٹے گزارنا،کسی غریب گھرانے کی گذر اوقات بہتر بنانے کے لیے انہیں کسی زندگی بخش کام یا کاروباری مہارت بڑھانے کے لیے ان کے کام میں رہنمائی کرنا، کسی غیر منافع بخش ہسپتال کو ایمبولینس عطیہ کرنا،علاقے کے لیے سٹریٹ لائٹس کا عطیہ دینا،کسی مصروف گلی میں پیدل چلنے والوں کے لیے واٹر کولر کا عطیہ دینا وغیرہ۔ یہ وہ سوسائٹی کے کام ہیں جن پر ایک بہترین معاشرہ کی بنیاد ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا پر ''یس،نو '' کر دینا کافی نہیں۔ آپ کو معاشرے میں مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔ ورنہ آپ تنہا رہتے رہتے اک دن تنہائی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ !

ای پیپر دی نیشن